Sonntag, 24. Juli 2011

میرا جی،شخصیت اور فن

حیدر قریشی(جرمنی)

میرا جی،شخصیت اور فن
(ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ)

ادبی دنیا میں آنے سے پہلے اپنی ٹین ایج میں میرے پسندیدہ شاعر وہی شعراء تھے جو ٹین ایجرز کے سدا بہار شاعر ہیں۔لیکن انہیں شاعروں میں ،اُن شاعروں سے یکسر مختلف میراجی بھی شامل تھے جنہیں میں نے ٹین ایج میں ہی حیرت کے ساتھ پڑھا تھا۔ان کا شعری مجموعہ’’ تین رنگ‘‘ مجھے کہیں سے ملا تھا اور میں نے اس کی نظمیں،گیت اور غزلیں اسی عمر میں پڑھ لی تھیں۔یہ غالباََ ۱۹۶۹ء کا سال تھا۔(عمر ۱۷ سال)جب میں نے میرا جی کو کچھ سمجھا ،کچھ نہیں سمجھا مگر کوئی انوکھا سا شعری ذائقہ ضرور محسوس کیا۔تب جہاں میں نوکری کرتا تھا، اس ملز میں لیبارٹری کے دوستوں کا بیت بازی کا مقابلہ ہوا تھا اور اس میں سب سے زیادہ میرا جی کے شعر پڑھے گئے ۔بیت بازی کا فیصلہ میرا جی کی ایک غزل نے کرایا۔

گناہوں سے نشوونما پا گیا دل 
درِ پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل
لام سے شروع ہونے والے اشعار ختم ہو گئے اور میرا جی کی اس غزل کے شعر ابھی باقی تھے۔اسی کتاب میں ایک نظم غالباََ ’’خلا ‘‘(۱)کے عنوان سے تھی۔
خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ٹین ایج،خام ذہن اور ایسی بات۔۔۔اس کے بعد میرا جی کو مربوط طور پر پڑھنے کا موقعہ تو نہیں ملا لیکن ادبی رسائل کے ذریعے کافی کچھ پڑھنے کو ملتا رہا، تعارف بڑھتا رہا۔یوں جدید نظم کے حوالے سے ان کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا گیا۔
میرا جی پر اب تک کافی کام ہو چکا ہے۔ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ انوار انجم نے لکھا ،متعدد اہم ادبی رسائل نے میرا جی سے متعلق دستیاب یادگار مواد کو محفوظ کیا۔اور اب زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر رشید امجد کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں پی ایچ دی کی ڈگری دی گئی ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اس مقالہ میں ان کے نگران تھے۔میں سمجھتا ہوں جدید نظم میں میرا جی جتنی اہم شخصیت ہیں ،رشید امجد جدید افسانے میں لگ بھگ اتنی ہی اہم شخصیت ہیں۔لگ بھگ اس لیے لکھا ہے کہ ہلکے سے تقدم و تاخر کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے باوجودرشید امجد کا جدید افسانے کے حوالے سے جو کام ہے وہ میرا جی کے جدید نظم والے کام جتنا ہی اہم ہے۔شاید اسی لیے رشید امجد نے نہ صرف دستیاب معلومات سے استفادہ کیا ہے بلکہ میرا جی کو جدید ادب کے باطنی حوالوں سے بھی عمدگی سے دریافت کیا ہے۔
اس مقالہ کے سات ابواب ہیں۔پہلا باب خاندانی،سوانحی اور شخصی حالات پر مشتمل ہے اور یہ باب اس مقالہ کا اہم ترین حصہ ہے۔اس باب میں میرا جی کے بارے میں جو اہم معلومات یکجا ہوئی ہے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیے دیتا ہوں۔
میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔۲۵؍مئی ۱۹۱۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔(ایک روایت میں گجرات بھی مذکور ہے)ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین کی پہلی بیوی فوت ہوئیں تو انہوں نے میرا جی کی والدہ سے شادی کر لی جو عمر میں منشی صاحب سے بہت چھوٹی تھیں۔عمروں کے اس تفاوت نے بھی میرا جی کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ان کے والد کو ریلوے کی ملازمت کی وجہ سے مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔گجرات کا ٹھیا واڑ سے لے کر بوستان ، بلوچستان تک انہوں نے سکھر،جیکب آباد،ڈھابے جی،جیسے مقامات گھوم لیے۔بنگال کے حسن کے جادو نے انہیں لاہور میں اپنا اسیر کیا ۔۱۹۳۲ء میں انھوں نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور پھر اسی کے ہو رہے۔یہ سراسر داخلی نوعیت کا یکطرفہ عشق تھا۔ میرا سین کو اس کی کلاس فیلوز میرا جی کہتی تھیں،چنانچہ ثناء اللہ ڈار نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا اور رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی کی زندہ مثال بن گئے۔اس عشق میں میٹرک پاس نہ کر سکے۔ہومیو پیتھک ڈاکٹری سیکھ لی لیکن نہ اس کی بنیاد پر ڈاکٹر کہلوانا مناسب سمجھا اور نہ ہی اس مہارت سے کوئی تجارتی فائدہ اٹھایا ۔ بال بڑھا لیے، ملنگوں جیسا حلیہ اختیار کر لیا۔پھر اس میں تدریجاََ ترقی کرتے گئے،لوہے کے تین گولے،گلے کی مالا،لمبا اور بھاری بھر کم اوور کوٹ،بغیر استر کے پتلون کی جیبیں اور ہاتھ عام طور پر جیب کے اندر،بے تحاشہ شراب نوشی،سماجی ذمہ داریوں سے یکسر بے گانگی۔۔۔یہ سارے نشان میرا جی کی ظاہری شخصیت کی پہچان بنتے گئے۔بقول محمد حسن عسکری :
’’جب انہوں نے دیکھا کہ دوست انہیں افسانہ بنا دینا چاہتے ہیں تو بے تامل افسانہ بن گئے،اس کے بعد ان کی ساری عمر اس افسانے کو نبھاتے گزری‘‘۔
میرا سین سے میرا جی کی پہلی ملاقات یا پہلی باردیکھنا ۲۰ مارچ ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے۔وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا تو کیا میٹرک بھی نہ کر سکے۔اس کے باوجود انگریزی زبان اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔جدید نظم کا تجربہ انگریزی ادب سے ہی آیا تھا میرا جی نے اسے ہندوستان کی مقامیت میں گوندھ کر اردو کی مستقل اور جاندار صنف بنادیا۔ان کے کئے ہوئے سارے تراجم بھی انگریزی سے ہوئے ہیں۔پھر ان کی تنقیدی بصیرت میں مغربی علوم سے مثبت استفادہ کے ساتھ اسے اپنے ادب کے تناظر میں دیکھنے کا رویہ بھی موجود ہے۔یوں میٹرک فیل میرا جی ،جو ظاہری زندگی میں ایک ملنگ سا شاعر ہے ادب کے معاملہ میں بہت ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔۲۹؍اپریل ۱۹۳۶ء کو بزم داستاں گویاں کے نام سے لاہور میں ایک ادبی تنظیم قائم ہوئی جو بعد میں حلقہ ارباب ذوق بن گئی۔۲۵؍اگست ۱۹۴۰ء کو میرا جی پہلی مرتبہ حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوئے،ان کی آمد نے حلقہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
میرا جی کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے مولانا صلاح الدین احمد کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھولی ۔لیکن ایجنسی گھاٹے کا شکار ہوئی۔نوبت مقدمہ بازی تک پہنچی۔ایسی فضا میں میرا جی نے مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘میں شمولیت اختیار کر لی۔والد نے برا منایا تو انہیں سمجھا بجھا دیا۔ ’’ادبی دنیا‘‘ میں ان کی شمولیت سے جدید ادبی رویوں کو فروغ ملنے لگا۔ ۱۹۴۲ء میں ’’ادبی دنیا‘‘ کو چھوڑ کردہلی گئے۔جون ۱۹۴۷ء کو بمبئی گئے لیکن اپنے مخصوص مزاج کے باعث دنیا داری میں کہیں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔لاہور کے زمانہ سے لے کر دہلی کے دور تک طوائفوں کے پاس بھی جاتے رہے اور لاہور کی ایک طوائف سے آتشک کا موذی تحفہ لے کر آئے۔دہلی میں ریڈیو کی ملازمت کے دوران دو اناؤنسرز کو کچھ پسند کرنے لگے لیکن ایک اناؤنسر کی پھٹکار کے بعد میرا سین کی مستی میں واپس چلے گئے۔بمبئی کی فلمی دنیا میں پاؤں جمانے کی کوشش کی۔مگر کامیاب نہ ہوئے۔اس دوران ماں سے ملنے کی خواہش لاہور جانے پر اکساتی رہی ،لاہور تو نہ جا سکے البتہ ’’سمندر کا بلاوا‘‘ جیسی خوبصورت نظم تخلیق ہو گئی۔ایک بار والدہ سے ملنے کے لیے معقول رقم جمع کر لی تھی کہ ایک تانگے والے نے اپنا مسئلہ بتایا کہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی۔میرا جی نے ساری رقم اٹھا کر تانگے والے کو دے دی اور والدہ سے ملنے کا پروگرام موخرکر دیا جوتادمِ مرگ موخر ہی رہا۔ایک اور موقعہ پر ایک ترقی پسند شاعرکی درد بھری داستان سن کر ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔بمبئی میں سخت غربت،بھیک مانگنے جیسی حالت ،دن میں چالیس سے پچاس تک پان کھانے کی عادت، کثرت شراب نوشی ،استمنا بالیداورآتشک کے نتیجہ میں ۳؍نومبر ۱۹۴۹ء کو میرا جی بمبئی کے ایک ہسپتال میں ساڑھے ۳۷ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔الطاف گوہر کی تحریر کے مطابق ’’مرنے سے چند دن پہلے جب ایک پادری نے ان سے پوچھا ۔۔’آپ یہاں کب سے ہیں ؟ ‘
تو میرا جی نے بڑی متانت سے کہا۔۔’ازل سے‘۔‘‘
اخترالایمان نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ چونکہ تقسیم بر صغیر کے معاََ بعد کا زمانہ تھا ۔اس لیے میرا جی جیسا شاعرجو زندگی بھر قدیم ہندوستان کی رُوح کا پرستاررہا ،اس کا مسلمان اور پاکستانی ہونا تعصب کا موجب بن گیا۔اخترالایمان نے خود اخبارات کے دفاتر میں فون کر کے خبر دی۔دوسرے دن خود جا کر میرا جی کی وفات کی خبر دی لیکن کسی اخبار نے ان کی وفات کی خبر چھاپنا گوارا نہیں کیا۔میرا جی کو بمبئی کے میرن لائن قبرستان میں دفن کیا گیا۔جنازے میں صرف پانچ افراد شامل ہوئے۔اخترالایمان،نجم نقوی،مدھو سودن،مہندرناتھ اور آنند بھوشن۔
میرا جی کی داستان کے اس مقام پر ڈاکٹررشید امجد نے میرا جی کی ایک غزل کا ایک مصرعہ بڑا ہی برجستہ درج کیا ہے ؂ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
میرا جی اپنی زندگی کے مختصر دور میں دہلی،لاہور،بمبئی،پونہ تک جن مختلف ادیبوں کے کسی نہ کسی رنگ میں قریب رہے ، ان میں سے چند نام یہ ہیں۔مولانا صلاح الدین احمد،شاہد احمد دہلوی،منٹو،یوسف ظفر،قیوم نظر، الطاف گوہر،مختار صدیقی،ن۔م۔راشد،اخترالایمان،راجہ مہدی علی خان،کرشن چندر،احمد بشیر،محمود نظامی،و دیگر۔
مقالہ کے دوسرے باب میں میرا جی کی نظم نگاری پر بات کی گئی ہے۔تیسرے باب میں میرا جی کے گیتوں اور غزلوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔چوتھے باب میں ان کی تنقید کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔پانچویں باب میں میرا جی کے تراجم کا احوال بیان کیا گیا ہے ۔چھٹے باب میں میرا جی کی نثر کا ذکر کیا گیا ہے۔یہاں کم از کم مجھے پہلی بار علم ہوا کہ اپنی عام ظاہری ہیئت کے بر عکس انہوں نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے اور سماجی موضوعات پر بھی بعض فکر انگیز مضامین تحریر کیے تھے اور علم فلکیات میں بھی انہیں دلچسپی تھی ۔ساتویں باب میں مذکورہ تمام حوالوں سے میرا جی کے ادبی مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کے ادبی مقام تک مقالہ لکھتے ہوئے انتہائی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا ہے۔تحقیق کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔مختلف اور متضاد آراء کو بھی یکجا کیا ہے اور اپنی طرف سے اپنا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔
یہاں ڈاکٹر رشید امجد کے ایسے تجزیوں کے چند اقتباس پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
’’میرا جی خود کو تکلیف دے کر ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے تھے۔ان کا کچھ تعلق ملامتی فرقے سے بھی بنتا ہے۔ملامتی خود کو برا بھلا کہہ کر ایک قسم کی روحانی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔میرا جی کے یہاں کچھ ملامتی اور کچھ بھگتی تحریک کے اثرات نے ایک ملی جلی کیفیت پیدا کر دی تھی لیکن مکمل طور پر انہیں کسی خانے یا خاص اثر کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔بہت سے اثرات سے مل کر جو کچھ بنا وہ خالصتاََ’’میرا جیت‘‘ تھی‘‘(ص ۹۵)
’’یہ ان کا بہت سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ ثناء اللہ ڈار کی حیثیت سے نہیں بلکہ میرا جی کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔انہوں نے اپنی شخصیت کی یہMyth ممکنہ رنج و غم سہہ کر بنائی تھی اور یہ محض ڈرامہ نہیں تھا کیونکہ ساری زندگی دکھوں کی نگری میں مارا مارا پھرنے والا مسافر اتنا طویل ڈرامہ نہیں کر سکتا۔یہ تو ایک شخصیت کیMyth کی تعمیر تھی جس کے لیے انہوں نے ثناء اللہ ڈار ہی کی قربانی نہیں دی بلکہ تمام ظاہری آرام و آسائش اور معمولات سے بھی کنارہ کشی کی۔زندگی کا جہنم بھوگ کر وہ میرا جی کو زندہ کر گئے۔یہی ان کا مقصد بھی تھا اوریہی ان کا ثمر بھی ہے۔(ص۱۰۵)
میرا جی کی نظم نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
’’میرا جی کی شاعری میں تنوع ہے ہی ایسا کہ اس کی کئی جہتیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں‘‘(ص۱۵۸)
’’میرا جی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس میں داخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔
داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات میرا جی پر ان لوگوں نے لگائے تھے جو ان کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘(ص ۱۵۹)
میرا جی کی گیت نگاری اور غزل گوئی کے بارے میں ڈاکٹر رشید امجد اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں:
’’میرا جی کے گیتوں میں جو کرب اور دکھ ہے وہ ان کی ذات کے ایوان سے چھن چھن کر وہاں آرہا ہے اور خاص طور پر سنجوگ کی ایک کیفیت،تمناؤں کی مستقل کسک،اور آشاؤں کی ایک بے انت دنیا،یہ سب ان کی ذات کے وہ گوشے ہیں جو ان کے مزاج کو گیت کے قریب لاتے ہیں اور گیت بطور صنف ان کے اس مزاج سے ایسا تال میل کھاتا ہے کہ میرا جی کے گیت نہ صرف یہ کہ ایک انفرادی حیثیت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کی ایک پہچان بھی بنتے ہیں‘‘(ص ۱۷۱۔۱۷۲)
’’میرا جی کی یہ غزلیں اسلوب اور اظہار کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی لفظیات بھی وہی ہیں جو میرا جی کی نظموں اور گیتوں کی ہیں۔گویا انہوں نے اپنے گیتوں کے مزاج کو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے،اس لیے یہ غزلیں نظم کا رنگ بھی لیے ہوئے ہیں‘‘(ص۱۸۷)
یہاں میں اپنی طرف سے یہ بات ایزاد کرنا چاہوں گا کہ میرا جی اپنے عہد کے نظم نگاروں میں بھی اور بعد میں آنے والے بیشتر اہم نظم نگاروں میں بھی اس لحاظ سے منفرد مثال ہیں کہ تخلیقی لحاظ سے جتنی ان کی نظمیں اعلیٰ پائے کی ہیں،اتنی ہی ان کی غزلیں بھی اعلیٰ پائے کی ہیں۔یہ الگ بات کہ انہوں نے غزلیں بہت کم کہی ہیں۔ان کے برعکس ہمارے بیشتراچھے نظم نگار (بہ استثنائے چند)جب غزل کہتے ہیں تو بہت ہی کمزور غزل کہہ پاتے ہیں۔
میرا جی کی تنقیدی بصیرت ان کی تنقیدی آراء سے عیاں ہے۔ایم ڈی تاثیر کی ایک نظم میں تخلص کے استعمال پر میرا جی نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا:
’’تخلص غزل کی پیداوار ہے اور غزل تک ہی اسے محدود رہنا چاہیے کیونکہ غزل میں اس کی کھپت بہت خوبی سے ہو جاتی ہے۔نظم میں اس کے استعمال سے تسلسل میں فرق پڑتا ہے۔خصوصاََ اس نظم میں جس کی خوبی اس کے تصورات کا بہاؤ ہے۔ایسی نظم میں موضوع سے قرب ہر لمحہ ضروری تھا اور تخلص موضوع کی بجائے شاعر کے قریب لے جاتا ہے۔‘‘(ص۲۰۰)
ڈاکٹررشید امجد نے میرا جی کی تنقید نگاری کے سلسلے میں کئی اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ان کے بقول:
’’میرا جی کا رجحان نفسیاتی تنقید کی طرف تھا لیکن انہوں نے نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک فریم کے طور پر استعمال نہیں کیا۔انہوں نے مختلف شاعروں کی نظموں کا تجزیہ کیا ہے،ان میں ترقی پسند بھی شامل ہیں،جن کے نظریات سے ان کا بنیادی اختلاف تھا،لیکن انہوں نے ان کی نظموں کو ان کے نظریے کی روشنی میں رکھ کر ان کا فنی تجزیہ کیا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا جی فن پارے کو کسی مخصوص نظریے سے دیکھنے کی بجائے اس کی فنی حیثیت کو سامنے رکھتے تھے‘‘(ص۲۰۲)
’’نظم کے بنیادی خیال کی تلاش میرا جی کی تنقید کا مرکزی نقطہ ہے اور اس مرکزی نقطہ کو وہ اکثر نفسیاتی توجیہات سے واضح کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں‘‘(۲۰۴)
’’میرا جی کی تنقید میں ایک تحقیقی ذائقہ بھی شامل ہے۔یہ در اصل ان کے وسیع مطالعہ کی عطا ہے‘‘(۲۰۹)
میرا جی کی ایک خوبصورت نظم ’’میں ڈرتا ہوں مسرت سے‘‘دیکھیے:
میں ڈرتا ہوں مسرت سے
کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت
مِری ہستی ہے اک ذرہ
کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ
ستاروں کا علمبردار کر دے گی،مسرت میری ہستی کو
اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی
تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ڈرتا ہوں
کہیں یہ میری ہستی کو بنادے خواب کی صورت
میں ڈرتا ہوں مسرت سے؍کہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا
اس نظم کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ان کے نزدیک اگر انسانی زندگی سے درد کی میراث چھِن جائے تو آدمی محض دیوتا بن جاتا ہے،یا محض خواب۔میرا جی کے نزدیک تلخیوں سے بھرا ہوا انسان مسرت کے ان لمحوں سے زیادہ قیمتی ہے جہاں آدمی دیوتا بن جاتا ہے یا خواب۔دونوں کیفیتیں میرا جی کے یہاں ایک ہیں۔دنیا کے دکھوں سے بھرے لوگ ان کے نزدیک معراج انسانیت ہیں،اسی لیے انہیں وہ لوگ بھی عزیز ہیں جو دکھوں کی دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہتے ہیں۔اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ وہ دکھوں کے حامی ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک انسان کا مقدر دکھوں سے عبارت ہے اور خوشیاں اس کے مقابلے میں نا پائیدار ہیں‘‘ (ص۱۵۰ )
اپنے تجزیے میں آگے چل کر ڈاکٹر رشید امجد نے مہابھارت کے حوالے سے ایک بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔جنگ کے خاتمہ پر جب کرشن جی مہاراج دوارکا جانے لگے تو تو انہوں نے مہارانی کنتی سے کہا کہ اے ماتا ! میں واپس جانے لگا ہوں تم کوئی ور مانگ لو۔اس پر مہارانی کنتی نے پوچھا مہاراج آپ واپس کب آئیں گے؟
اس پر کرشن جی نے کہا کہ جب تم دکھ اور تکلیف میں ہو گی تب واپس آجاؤں گا۔اس پر ماتا کنتی نے ور مانگا کہ سدا دکھ اور تکلیف میں رہوں۔اس قصہ کو بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
’’کنتی اور میرا جی نے ایک ہی ور مانگا ہے یعنی دکھ اور تکلیف کا ور، لیکن کنتی اور میرا جی کے ور میں فرق یہ ہے کہ ماتا کنتی نے یہ ور کرشن جی کے درشنوں کے لیے مانگاتھا مگر میرا جی نے یہ خواہش بھی نہیں کی،انہوں نے ایک طرف تو دکھ اور تکلیف کا انتخاب کیا اور میرا سین کی واپسی کی خواہش کی بجائے خود میرا سین بن کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنے اندرسمو لیا۔رانجھا رانجھا کردی نی میں آپ ای رانجھا ہوئی‘‘(ص۱۵۱)
اپنے مقالہ کے صفحہ ۱۶۰ تا ۱۶۱ پر انہوں نے میرا جی کی نظم کی انفرادیت کے جو گیارہ نکات بیان کیے ہیں،وہ سب اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ ڈاکٹررشید امجدکی تحقیقی و تنقیدی بصیرت یہاں کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد کی یہ رائے میرا جی کی شخصیت کے ایک مخفی پہلو کو روشن کرتی ہے:
’’جنس کا حوالہ میرا جی کے ساتھ اس طرح چپک گیا ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میرا جی کا سارا مسئلہ جنس ہی ہے اور انہوں نے دوسرے مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔در اصل میرا جی کے شخصی افسانے نے ان کے گرد ایک ایسا ہالہ بنا دیا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کی دوسروں نے کو ئی کو شش ہی نہیں کی اور عام لوگ میرا جی کو ان افسانوں اور ان کی شاعری پر ہونے والے سطحی اعتراضات ہی کے حوالے سے جانتے ہیں۔یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرا جی نے اپنے مضامین میں جس سیاسی اور سماجی شعور کا اظہار کیا ہے اور ان کے مضامین جس طرح بر صغیر کی سیاسی،سماجی اور اقتصادی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں وہ شعور ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل تھا۔عام طور پر میرا جی کو اینٹی ترقی پسند سمجھا جاتا ہے لیکن میرا جی نے اپنے مضامین میں بر صغیر کی اقتصادی صورتحال کے جو تجزیے کیے ہیں وہ ان کے عہد کا بڑے سے بڑا ترقی ترقی پسندبھی نہیں کرتا‘‘(ص۲۸۷)
آج کل مابعد جدیدیت کے نام پر، قاری (در حقیقت غیر تخلیقی نقاد) کی قرات کو غیر ضروری بلکہ ناجائزاہمیت دلانے کا کھیل چل رہا ہے۔ یوں قاری کی اہمیت کے جو’’ راز‘‘ کھولے جارہے ہیں میرا جی نے کسی لسانی گورکھ دھندے کے بغیر آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اس بات کا معقول پہلو آسان لفظوں میں بیان کر دیا تھا اور نا معقول پہلو آج کے مابعد جدید نقاد کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ان کے ایک مضمون کا یہ اقتباس دیکھیے :
’’ہر لفظ ایک تصور یا خیال کا حاصل ہے اور اس تصور یا خیال کے ساتھ ساتھ ہی اس کے لوازم بھی ایک ہالے کی مانند موجود ہوتے ہیں۔لوازم کا یہ ہالہ انفرادی انداز نظر کا پابند ہے،یعنی ایک ہی لفظ زیدکے لیے اور تلازم خیال ہے اور بکر کے لیے اور۔لیکن ایک ہی زبان سے بہت سے افراد کا مانوس ہونا مختلف افراد کے لیے الفاظ میں قریباََ قریباََ یکساں تلازم خیال پیدا کر دیتا ہے۔جب کوئی لفظ ہمارے فہم وادراک کے دائرے میں آتا ہے تو یہ تلازم خیال کا ہالہ ذہن میں ایک خاص ہیئت اختیار کرتا ہے اور جب اس پہلے لفظ کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ ملایا جائے تو ہالہ اپنی ہیئت کو دوسرے لفظ کی مناسبت سے تبدیل کر لیتا ہے‘‘(ص۲۰۶)
میرا جی کے ادبی مقام کے تعین میں ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
’’میرا جی کے یہاں مادیت اور ماورائیت کا جو امتزاج نظر آتا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے شعراء سے منفرد و ممتاز بناتا ہے۔اپنے عہد کے مجموعی انتشار اور مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغار کے باوجود میرا جی کی شخصیت میں ایک روایتی عنصر بھی موجود تھا۔یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس کے ڈانڈے صوفیانہ درد و غم سے جا ملتے ہیں۔یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کر دیتا ہے‘‘ (ص۳۰۲)
’’یہ حقیقت ہے کہ میرا جی بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی شاعری خصوصاََ نظموں کے ذریعے جدید اردو کی بنیاد رکھی اور اپنی تنقید کے توسط سے اردو شاعری کی تفہیم کی اور نئے تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ان کا کام ان کی عظمت کی سند ہے کہ میرا جی اپنے عہد ہی میں نہیں،آج بھی ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘(۳۲۵)
ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مقالہ میں تحقیق کے تمام تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اپنی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت سے کام لیتے ہوئے میرا جی کی ادبی حیثیت پر دستاویزی نوعیت کا اہم اور یاد گار کام کر دیاہے۔
اس کتاب(مقالہ)کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے میرا جی سے بھر پور ملاقات کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) یہ نظم اب’’ کلیاتِ میرا جی‘‘میں ’’سلسلۂ روزو شب‘‘کے عنوان سے ملی ہے تاہم اس کی تیسری لائن
’’ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے‘‘سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری یادداشت میں ۳۶ سال پہلے کی پڑھی ہوئی نظم کا عنوان’’ خلا‘‘ کیوں رہ گیا تھا۔(ح۔ق
)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Dienstag, 12. Juli 2011

لذتِ شام، شبِ ہجر خداد داد نہیں

غزل:میرا جی

لذتِ شام، شبِ ہجر خداد داد نہیں
اس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں

کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پوچھ
یہ وہ گلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں

یک ہمہ حسنِ طلب،یک ہمہ جانِ نغمہ
تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے
زندگی نقش گرِ خاطر ناشاد نہیں!

اُن کی ہر اک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط
ہر قدم گرچہ مجھے سیلئ استاد نہیں

دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے
جنتِ حُسنِ نَفَس و جنتِ شداد نہیں

ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے
باعثِ زینتِ گل تو قدِ شمشاد نہیں

خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے
پُر سکوں آبِ رواں ،نوحہ کناں باد نہیں
 

زندگی کش مکشِ حاصل و نا حاصل ہے

غزل:میرا جی


زندگی کش مکشِ حاصل و نا حاصل ہے
ماسوا اس کے ہر اک نقشِ جہاں باطل ہے

دُور ماضی کا اُفق،سامنے سیلِ امروز
وقت کا کٹتا کنارا تو یہ مستقبل ہے

دلِ محروم ہے عشاقِ تن آساں کا امیر
گرچہ ہر نورِ گریزاں کا یہی سائل ہے

مجھ سے تو بہجتِ آسودہ کا حاصل مت پوچھ
فکر،ہر رنگ میں لذت کے لیے قاتل ہے

ہاتھ پر ہاتھ دھرے عمر گزاری جس نے
کشتنی،سوختنی،جو بھی کہو یہ دل ہے

لبِ میگوں سے جو محرومی ہے تسلیم ہمیں
لذتِ تشنہ لبی اس میں مگر شامل ہے

تیرگی، موجۂ خونخوار، شکستہ کشتی
اور ذرا آنکھ اُٹھائی تو وہیں ساحل ہے

یہ تماشائے چمن نقشِ خط و رنگ نہیں
بہ تقاضائے حیا کاہشِ آب و گِل ہے

خدا

میرا جی

خدا


میں نے کب دیکھا تجھے روحِ ابد

ان گنت گہرے خیالوں میں ہے تیرا مرقد
صبح کا،شام کا نظارہ ہے
ذوقِ نظارہ نہیں چشمِ گداگرکو مگر

میں نے کب جانا تجھے روحِ ابد

راگ ہے تو پہ مجھے ذوقِ سماعت کب ہے
مادیّت کا ہے مِرا ذہن،مجھے
چھو کے معلوم یہ ہو سکتا ہے شیریں ہے ثمر
اور جب پھول کھلے اس کی مہک اُڑتی ہے
اپنی ہی آنکھ ہے اور اپنی سمجھ،کس کو کہیں۔۔تو مجرم

میں نے کب سمجھا تجھے روحِ ابد

خشک مٹی تھی مگر چشمِ زدن میں جاگی
اُسے بے تاب ہوا لے کے اُڑی
پھر کنارا نہ رہا،کوئی کنارا نہ رہا
بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل
زور سے گھومتے پہیے کی طرح
ان گنت گہرے خیال ایک ہوئے
ایک آئینہ بنا
جس میں ہر شخص کو اپنی تصویر
اپنے ہی رنگ میں اک لمحہ دکھائی دی تھی
ایک لمحے کے لیے
بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل

میں نے دیکھا ہے تجھے روحِ ابد

ایک تصویر ہے شب رنگ ،مہیب
درِ معبد پہ لرز اٹھے ہرایک کے پاؤں
ہاتھ ملتے ہوئے پیشانی تک آئے دونوں
خوف سے ایک ہوئے

میں تجھے جان گیا روحِ ابد

تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں
(چشمِ ظاہر کے لیے خوف کا سنگیں مرقد)
اور مِرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

تین رنگ

Montag, 11. Juli 2011

روحِ انساں کے اندیشے


میرا جی
 
روحِ انساں کے اندیشے


خیال موت کے مجھ کو ستا رہے ہیں کیوں؟
یہ سائے تیرہ و تاریک آرہے ہیں کیوں؟
اور عقل و ہوش کو بے خود بنا رہے ہیں کیوں؟
کہ زندگی کا ابھی ہو نہیں چکا آغاز
ابھی ہزاروں برس اور آنے والے ہیں
مِرے عروج و تنزل کو لانے والے ہیں
مجھے عجیب زمانے دکھانے والے ہیں
مجھے دکھائیں گے لا انتہا زمین کے راز
ابھی تو شامِ غمِ عشق ہے ، سحر ہو گی
ابھی تو شاخِ تفکر بھی بار ور ہو گی
ابھی خیال کی وسعت کشادہ تر ہو گی
کہ لاکھوں نغمے ہے دل میں لیے فضا کا ساز
یہ پست ہمت و دردانہ رنگ کیسے ہیں؟
یہ قلبِ کوہ میں گہرے سرنگ کیسے ہیں؟
یہ بحرِ فکر میں وحشی نہنگ کیسے ہیں؟
ابھی نہیں ہوئی پوری مری مہیب نماز
یہ کیسی وسعتِ کونین میں بجی شہنائی؟
تھا اس کا شور کہ بے باک زلزلہ آرائی؟
یوں دیو، فکر میں یہ عاجزی کہاں سے آئی؟
کہ سست رو ہے یہ بے چین،دہر گرد جہاز
 
پابند نظمیں

ترقی

میرا جی

ترقی


بھید لکھا تھا یہ پتھر پہ پیا داسی نے
اسی چوکھٹ پہ نصیبا جاگا
جس پہ بڑھتے ہوئے پاؤں جھجکے
اور جنگل میں گئے
قصرِ عشرت میں وہ اک ذرہ تھا
قصرِ عشرت میں ازل سے اب تک
جو بھی رہتا رہا اک راگ نیا گاتا رہا
اور جنگل میں وہی راگ ۔۔۔پرانا نغمہ
گونجتا تھا کہ ہر اک بستی سے
آخری عیش کو دوری ہی بھلی ہوتی ہے
اس نے جنگل میں یہ جا کر جانا
بستیاں اور بھی ویران ہوئی جاتی ہیں
وہ چمک،منزلِ مقصود ،چراغ
دائیں بائیں کی ہواؤں سے ہر اک پل،ہر آن
نور کھونے کو ہے،لو! نور مٹا،نور مٹا
اس کی لو کانپتی جاتی ہے ذرا تھمتی نہیں
ابھی بڑھنے کو ہے،بڑھنے کو ہے،بڑھ جائے گا
یہ چراغِ انساں
یہی اک دھیان اسے آگے لیے جاتا ہے
اور وہ بڑھتا گیا
پیڑ کی چھاؤں تلے سوچ میں ایسا دوبا
بن گیا فکرِ ازل،فکر، ابد
اور جنگل سے نکل آیا تو اس نے دیکھا
بستیوں میں بھی اسی چاہ کے انداز نرالے ،پھیلے
اور پھر وہ بھی تھا بھائی،میں بھی
دیوتا اس کو بنایا کس نے؟
کہہ تو دو قصرِ مسرت میں جواک ذرہ تھا
اس کو اک عالمِ ادراک بتایا کس نے؟
اسی انساں نے جو ہر بستی کو
آج ویرانہ بنانے پہ تلا بیٹھا ہے
اور اک ذرے کے بل پر افسوس
بھید کیوں لکھا نہیں تھا یہ پیا داسی نے
راستے اور بھی ہیں،اور بھی ہیں،اور بھی ہیں
اسی اک ذرے کی چوکھٹ پہ نصیبے کو بھی نیند آہی گئی
 
تین رنگ

Sonntag, 10. Juli 2011

سلسلۂ روز و شب

میرا جی

سلسلۂ روز و شب


خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے
سمٹتے ہوئے،دل میں وہ سوچتا ہے
تعجب کہ نورِ ازل مٹ چکا ہے

بہت دور انسان ٹھٹکا ہوا ہے
اُسے ایک شعلہ نظر آرہا ہے
مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے
تخیّل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے
ازل ایک پل میں ابد بن گیا ہے

عدم اس تصور پر جھنجھلا رہا ہے
نفس دو نفس کا بہانہ بنا ہے
حقیقت کا آئینہ ٹوٹا ہوا ہے
تو پھر کوئی کہہ دے یہ کیا ہے،وہ کیا ہے؟
خلا ہی خلا ہے،خلا ہی خلا ہے

تین رنگ

گناہوں سے نشو ونما پا گیا دل

غزل:میرا جی
 
گناہوں سے نشو ونما پا گیا دل
در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل

اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا
اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل

یہ ننھّی سی وسعت یہ نادان ہستی
نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل

نہ تھا کوئی معبود، پر رفتہ رفتہ
خود اپنا ہی معبود، بنتا گیا دل

نہیں گریہ وخندہ میں فرق کوئی
جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل

بجائے دل اک تلخ آنسو رہیگا
اگر ان کی محفل میں آیا گیا دل

پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ہے
ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل

کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے
اگر حشر کے روزپکڑا گیا دل

بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن
ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل

کہی بات جب کام کی میراجی نے
وہیں بات کو جھٹ سے پلٹا گیا دل
 

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بْھول گیا

غزل:میرا جی

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بْھول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بْھول گیا


کیا بْھولا، کیسے بْھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بْھول گیا


کیسے دن تھے، کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بْھول گیا


اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ، بْھول گیا


یاد کے پھر میں آکر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دْکھ میں سْکھ ہے سْکھ میں دْکھ ہے بھید یہ نیا را بْھول گیا


ایک نظر کی، ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مِٹا جب اک پل بیتا، بْھول گیا


سْوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا، ساگر گہرا، بْھول گیا


ہنسی ہنسی میں کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹا
دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بْھول گیا


اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بْھول گیا


جس کو دیکھو اْس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہاپرہم کو زمانہ بْھول گیا


کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میراجی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بْھول گیا

یعنی۔۔۔۔

میرا جی

یعنی۔۔۔۔


میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں
لیکن اس میں کیا بات کہوں
اک بات میں بھی سو باتیں ہیں
کہیں جیتیں ہیں،کہیں ماتیں ہیں
دل کہتا ہے میں سنتا ہوں
من مانے پھول یوں چنتا ہوں
جب مات ہو مجھ کو چپ نہ رہوں
اور جیت جو ہو درّانہ کہوں
پل کے پل میں اک نظم لکھوں
لیکن اس میں کیا بات کہوں
جب یوں الجھن بڑھ جاتی ہے
تب دھیان کی دیوی آتی ہے
اکثر تو وہ چپ ہی رہتی ہے
کہتی ہے تو اتنا کہتی ہے
کیوں سوچتے ہو اک نظم لکھو
کیوں اپنے دل کی بات کہو
بہتر تو یہی ہے چپ ہی رہو

لیکن پھر سوچ یہ آتی ہے
جب ندی بہتی جاتی ہے
اور اپنی اننت کہانی میں
یوں بے دھیانی میں،روانی میں
مانا ہر موڑ پہ مڑتی ہے
پر جی کی کہہ کے گزرتی ہے
سر پر آئی سہہ جاتی ہے
اور منہ آئی کہہ جاتی ہے
دھرتی کے سینے پہ چڑھتی ہے
اور آگے ہی آگے بڑھتی ہے
یوں میں بھی دل کی بات کہوں
جی میں آئے تو نظم لکھوں
چاہے اک بات میں سو باتیں
جیتیں لے آئیں یا ماتیں
چاہے کوئی بات بنے نہ بنے
چاہے سُکھ ہوں یا دُکھ اپنے
چاہے کوئی مجھ سے آکے کہے
کیوں بول اُٹھے،کیوں چُپ نہ رہے

چاہے میں کہہ کر چپ ہی رہوں
میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں
لیکن اس میں کیا بات کہوں

تین رنگ

جوہوکے کنارے

میرا جی

’’جوہو‘‘کے کنارے


افق پہ دور۔۔۔کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں

کوئی قریب بارِ نور سے عیاں تو کوئی دور کہر میں نہاں
ہر ایک ایسے جیسے ساکن و خموش و پُر سکون۔۔۔ہر ایک
بادباں ہے ناتواں
مگر ہر ایک ہے کبھی یہاں کبھی وہاں
سکوں میں ایک جستجوئے نیم جاں
حیاتِ تازہ و شگفتہ کو لیے رواں دواں
افق پہ دور کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں


قریب شورِ ساحلِ خمیدہ ہے
۲
ہر ایک موج یوں رمیدہ ہے
کہ جیسے آبدیدہ ہے
کہ دور افق پہ کشتیاں نہیں ہیں کوئی روح پارہ پارہ
غم گزیدہ ہے
کنارِ آب سیپیاں ہی سیپیاں ہیں ایک عکسِ ناتواں
اچانک اک گھٹا اُٹھی
اچانک اس کے پار آفتاب چھپ گیا
اچانک ایک پل میں کشتیاں بھی مٹ گئیں
کنارِ آب پر کھلی ہوئی پڑی ہوئی ہیں سیپیاں ہی سیپیاں

تین رنگ

آمدِ صبح

میرا جی

آمدِ صبح


دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا!
نہ ٹھہرے گا یہ سر پر رات کی رانی کے اک پل کو،

یہ روشن اور اجلا چاند یعنی رات کا پریمی
یہ اس کو جگمگاتے،پیلے تاروں سے
سجا کر لایا ہے گھر سے
مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد،
دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا

ہے دل میں چاند کے جذبہ محبت کا
چھپاتا ہے وہ غیروں کی نگاہوں سے
اُڑھا کر اک دوپٹہ اس کو تاروں کا
مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد،
فضا کے گلستاں میں پھرتی ہے اٹھکیلیاں کرتی،
ہوائیں گیسوؤں کو اُس کے چھو کر دوڑ جاتی ہیں،
دوپٹہ شب کا ڈھلکے گا،

وہ لو،پیلا پڑا روشن سا چہرہ چاند کا بالکل
اسے افسوس !اندیشوں نے گھیرا ہے
اسے خطرہ ہے غیروں کا
ہے جذبہ اس کے دل میں تند چاہت کا
مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد
وہ ان کیفیتوں کو دل میں لاتی ہی نہیں بالکل

دوپٹہ شب کا ڈھلکا،ہاں وہ ڈھلکا جس طرح نغمہ
کسی راگی کے دل سے اُٹھ کے اک دم بیٹھ جاتا ہے

پرندے چہچہاتے ہیں
وہ لو،سورج بھی اپنی سیج پر اب جاگ اُٹھا ہے
گئی رات اور دن آیا

۱۹۳۵

Samstag, 9. Juli 2011

ابوالہول

میرا جی

ابوالہول

بچھاہے صحرااوراُس میں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے
پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی

نہ اب وہ محفل،نہ اب وہ ساقی

مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے
فضائے ماضی میں کھو چکی داستانِ فردا
مگر یہ افسانہ خواں کھڑا ہے
زمانہ ایوان ہے،یہ اس میں سنا رہا ہے پرانے نغمے
میں ایک ناچیز و ہیچ ہستی
فضائے صحرا کے گرم و ساکن ،خموش لمحے
مجھے یہ محسوس ہورہا ہے
ابھی وہ آجائیں گے سپاہی؍وہ تُند فوجیں
دلوں میں احکام بادشاہوں کے لے کے
آجائیں گی اُفق سے
ہوائے صحرا نے چند ذرے کیے پریشاں
ہے یا وہ فوجوں کی آمد آمد؟
خیال ہے یہ فقط مِرا اک خیال ہے،میں خیال سے
دل میں ڈر گیا ہوں
مگر یہ ماضی کا پاسباں پُر سکون دل سے
زمیں پہ اک بے نیاز انداز میں ہے قائم

۱۹۳۶ء

بلندیاں

میرا جی

بلندیاں

دیکھ انسانوں کی طاقت کا ظہور
اک سکونِ آہنیں ہمدم ہے میرا،اور میں
روزنِ دیوار سے
دیکھتا ہوں کوچہ و بازار میں

آرہے ہیں،جا رہے ہیں لوگ ہر سُو۔۔۔گرم رَو
اور آہن کی سواری کے نمائندے بھی ہیں
تیز آنکھوں،نرم قدموں کو لئے
محو گہرے نشّۂ رفتار میں
اور یہ اونچا مکان
جس پہ استادہ ہوں میں
جذبۂ تعمیر کا اظہار ہے
سرخرو،دل میں اولوالعزمی لئے
رات کی تاریکیاں ہر شے پہ ہیں چھائی ہوئی
لیکن ان تاریکیوں میں ہیں درخشاں چشم ہائے
دیوِ تہذیبِ جدید
اک سکونِ آہنیں ہمدم ہے میرا ،اور میں
سوچتا ہوں عرصۂ انجم کے باشندے تمام
دل میں کہتے ہوں گے۔۔۔ہیچ!
۱۹۳۶

ارتقاء

میرا جی

ارتقاء


قدم قدم پر جنازے رکھے ہوئے ہیں،ان کو اُٹھاؤ جاؤ!
یہ دیکھتے کیا ہو؟کام میرا نہیں،تمہارا یہ کام ہے
آج اور کل کا
تم آج میں محو ہو کے شاید یہ سوچتے ہو
نہ بیتا کل اور نہ آنے والا تمہارا کل ہے
مگر یونہی سوچ میں جو دوبے تو کچھ نہ ہو گا
جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ،جاؤ!
چلو! جنازوں کو اب اٹھاؤ۔۔۔
یہ بہتے آنسو بہیں گے کب تک؟
اُٹھو اور اب ان کو پونچھ ڈالو
یہ راستہ کب ہے؟اک لحد ہے
لحد کے اندر تو اک جنازہ ہی بار پائے گا یہ بھی سوچو
تو کیا مشیت کے فیصلے سے ہٹے ہٹے رینگتے رہوگے؟
جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اُٹھاؤ،جاؤ!
لحد ہے ایسے کہ جیسے بھوکے کا لالچی منہ کھلا ہوا ہو
مگر کوئی تازہ۔۔اور تازہ نہ ہو میسر تو باسی لقمہ بھی اسکے
اندر نہ جانے پائے
کھلا دہن یوں کھلا رہے جیسے اک خلا ہو
اٹھاؤ،جلدی اٹھاؤ،آنکھوں کے سامنے کچھ جنازے
رکھے ہوئے ہیں،ان کو اُٹھاؤ ،جاؤ،

لحد میں ان کو ابد کی اک گہری نیند میں غرق کرکے آؤ
اگر یہ مُردے لحد کے اندر گئے تو شاید
تمہاری مُردہ حیات بھی آج جاگ اُٹھے

تین رنگ

Freitag, 8. Juli 2011

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

میرا جی

میں ڈرتا ہوں مسرت سے


میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت
مِری ہستی ہے اک ذرہ
کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ
ستاروں کا علمبردار کر دے گی،مسرت میری ہستی کو
اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی
تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ڈرتا ہوں
کہیں یہ میری ہستی کو بنادے خواب کی صورت
میں ڈرتا ہوں مسرت سے؍
کہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا


۱۹۳۶ء

یگانگت

میرا جی

یگانگت


زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے

فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
میں کوئی برائی نہیں ہوں،زمانہ نہیں ہوں،تسلسل کا جھولا نہیں ہوں
مجھے کیا خبرکیا برائی میں ہے،کیا زمانے میں ہے،اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا
کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہے
برائی،بھلائی،زمانہ،تسلسل۔۔یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں
مجھے تو کسی بھی گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے
میں ہوں ایک،اور میں اکیلا ہوں،ایک اجنبی ہوں
یہ بستی،یہ جنگل،یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا
یہ پربت،اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے،یہ گاڑی سے ٹکراکے مرتا ہوا ایک اندھا مسافر
ہوائیں،نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل
یہ کیا ہیں؟
یہی تو زمانہ ہے ،یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں؍یہ بستی،یہ جنگل،یہ رستے ،یہ دریا،یہ پربت،عمارت،مجاور۔مسافر
ہوائیں،نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل
یہ سب کچھ ،یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے
زمانہ ہوں میں،میرے ہی دَم سے اَن مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے
مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آکر ملے ہیں

تین رنگ

سمندر کا بلاوا

میرا جی
سمندر کا بلاوا

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مِرے
دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں،مگر یہ انوکھی ندا آرہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا
’’مِرے پیارے بچے‘‘۔۔’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے‘‘۔۔’’دیکھو‘‘اگر یوں کیا تو
بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا ۔۔’’خدایا،خدایا!‘‘
کبھی ایک سسکی،کبھی اک تبسم،کبھی صرف تیوری
مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں
انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئے جا رہی ہے

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں
یہ اک گلستاں ہے۔۔۔ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں، کھِل کھِل کے مرجھا کے
گِرتے ہیں ،اِک فرشِ مخمل بناتے ہیں جس پر
مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں
کہ جیسے گلستاں ہی اِک آئینہ ہے
اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری،مگر ایک پل میں جو جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ اُبھری

یہ صحرا ہے۔۔۔پھیلا ہوا،خشک،بے برگ صحرا
بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں
مگر میں تو دور۔۔ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں
نہ اب کوئی صحرا،نہ پربت،نہ کوئی گلستاں
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم تیوری
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مِرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
بلاتے بلاتے توکوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا
تو پھر یہ ندا آئینہ ہے،فقط میں تھکا ہوں
نہ صحرا،نہ پربت، نہ کوئی گلستاں،فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی

تین رنگ

جُزو اور کُل

میرا جی

جُزو اور کُل


سمجھ لو کہ جو شے نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں

کہیں بھی نہیں ہے
سمجھ لو کہ جو شے دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے، وہ یہیں ہے
یہیں ہے؟مگر اب کہاں ہے؟
مگر اب کہان ہے
یہ کیا بات ہے،ایسے جیسے ابھی وہ یہیں تھی
مگر اب کہاں ہے؟
کوئی یاد ہے یا کوئی دھیان ہے یا کوئی خواب ہے؟
نہ وہ یاد ہے اور نہ وہ دھیان ہے اور نہ وہ خواب ہے،
مگر پھر بھی کچھ ہے
مگر پھر بھی کچھ ہے
وہ اک لہر ہے،۔۔۔ہاں فقط لہر ہے
وہ اک لہر ہے ایسی جیسی کسی لہر میں بھی کوئی بات ہی تو
نہیں ہے
اسی بات کو رو رہا ہوں
اسی بات کو رو رہا ہے زمانہ

زمانہ اگر رو رہا ہے تو روئے

مگرمیں ازل سے تبسم، ہنسی قہقہوں ہی میں پلتا رہا ہوں
ازل سے مرا کام ہنسنا ہنسانا رہا ہے
تو کیا جب زمانہ ہنسا تھا تو اس کو ہنسایا تھا میں نے؟
(یہ تم کہہ رہے ہو جو روتے رہے ہو؟
اگر تم یہ کہتے ہو میں مانتا ہوں)
مگر جب زمانے کو رونا رُلانا ملا ہے تو روتا رہے گا زمانہ
فقط میں ہنسوں گا
یہ ممکن نہیں ہے
زمانہ اگر روئے،روؤں گا میں بھی
زمانہ ہنسے گا تو میں بھی ہنسوں گا
مگر یہ زمانے کا ہنسنا،یہ رونا،وہ شے ہے نظر آئے اور
یہ کہے میں کہاں ہوں کہیں بھی نہیں ہوں
زمانے کا ہنسنا ،زمانے کا رونا وہ شے ہے
دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے۔۔۔۔۔
اور یہیں ہے
میں ہنستا چلا جاؤں گا اور روتا چلا جاؤں گا اور پھر بھی
زمانہ کہے گا تو روتا رہا ہے،تو ہنستا رہا ہے
مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے کہ میں ہی وہ شے ہوں
جو اب بھی نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں تو پھر بھی
دکھائی نہ دے اور کہے میں کہیں بھی نہیں ہوں
میں روتا رہا تھا میں ہنستا گیا ہوں
مگر تم تو ہنستے گئے تھے۔۔بس اب تم ہی روؤ گے اور
صرف اک میں ہوں جو اب بھی ہنستا رہوں گا

تین رنگ