Freitag, 2. August 2013

جدید ادب کامیرا جی نمبر


 جدید ادب کامیرا جی نمبر



جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر پر جو تبصرے،مضامین وغیرہ شائع ہوئے تھے،انہیں اسی ویب سائٹ کے اس لنک پر یک جا کر دیا گیا تھا۔
http://poetmeeraji.blogspot.de/2012_09_01_archive.html
اب مزید کچھ مضامین اور تبصرے سامنے آئے ہیں تو انہیں یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔مزید جو مضامین سامنے آئے انہیں بھی یہیں جمع کر دیا جائے گا۔

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

جدید ادب کا میرا جی نمبر

 
ایم۔ خالد فیاض
 (مدیر ’’تناظر‘‘گجرات،پاکستان)

کبھی کبھی مجھے اُردو تنقید پر ہمارے کلاسیکی شعرا کے پیش کیے گئے محبوب جیسا گمان ہوتا ہے جس کے آگے تخلیق کار ایک عاشق زار کی سی حالت میں نظر آتا ہے۔ لطف و کرم پر مائل ہو تو کیا کیا مہربانیاں نہیں کرتی اور اگر طبعیت بے زاری پر اُتر آئے تو بے اعتنائی کے وُہ وُہ مظاہرے کہ الحذر۔
ہماری تنقید سے جن تخلیق کاروں کے ساتھ ظالمانہ حد تک بے رُخی برتی اُن میں ایک میرا جی بھی ہیں۔ بنیادہ طور پر ہمارے معاشرے میں تماشا گیرانہ صفات بہت زیادہ پائی جاتی ہیں اور ہر وُہ جیز جو معمول سے ہٹ کر ہو، ہمارے لیے ’’تماشا‘‘ بن جاتی ہے۔ اور میرا جی تو عام ڈگر سے اچھے خاصے ہٹے ہوئے تھے۔ لہٰذا ہمارے لیے وُہ ایک ’’تماشا‘‘ ٹھہرے اور ہماری تنقید، ہماری ’’تماشا گیرانہ صفات‘‘ کا اظہاریہ۔ یہی وجہ ہے کہ میرا جی پر جو تھوڑی بہت تحریریں تنقید کے نام پر سامنے آئیں اُن میں بیشتر میرا جی کی شخصیت، لباس، حلیہ اور کچھ ’’خاص عادات‘‘کا بیانِ محض بن کر رہ گئیں جب کہ اُن کے فن اور تخلیقات پر سنجیدہ تنقیدی کاوشیں خال خال ہی نظرآئیں۔
اِس سال جب میرا جی کی سوویں سالگرہ آئی تو امید تھی کہ ہماری تنقید میرا جی کی طرف اپنی خاص اور سنجیدہ توجہ صرف کرے گی لیکن ناقدین نے اب بھی میرا جی سے ایسی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا کہ اسے انتہا درجہ کہ سرد مہری کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایسے میں جب حیدر قریشی نے ’’جدید ادب‘‘ کا ’’میرا جی نمبر‘‘ شائع کیا تو وہ کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوا۔ حیدر قریشی نے میرا جی پر ایسا ضخیم اور معیاری نمبر نکال کر اِس سال بھی اُردو ادیبوں کی قائم رہنے والی بے اعتنائی کا کسی حد تک مداوا کر دیا۔
اِس خصوصی اشاعت کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِس کے پیچھے حیدر قریشی کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی نظر آتی ہے کیوں کہ اِس اشاعت پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ میرا جی پر محض ایک خصوصی اشاعت اُن کا مقصد نہیں تھا بلکہ اُن کا مقصد میرا جی کو اُن کی تمام تر حیثیات کے ساتھ پیش کرنا تھا۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ حیدر قریشی اِس میں بہ احسن و خوبی کامیاب رہے ہیں۔
اپنی گفتگو (اداریہ) میں حیدر قریشی نے چند بہت اہم باتیں کی ہیں مثلاً؛ ’’میرا جی سے بہت سارے لکھنے والوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اکتساب کیا، فیض اُٹھایا لیکن عمومی طور پر غالباً اُن کی عوامی مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے، اُن کے اعتراف میں بخل سے کام لیا۔‘‘ اور یہ کہ ’’کسی شاعر اور ادیب کے مقام کا تعین اُس کی تخلیقات اور نگارشات کے ذریعے ہی کیا جانا چاہیے۔ اگر اِس میں مذہبی و مسلکی معاملات کو بنیاد بنا کر کسی تخلیق کار کا مقام طے کرنے کے منفی رویہ کو فروغ دیا جانے لگا تو اِس سے اُردو ادب میں طالبانی رویہ فروغ پائے گا جو ادب کے لیے کسی زہر سے کم نہیں۔‘‘ یا پھر یہ کہ ’’ہماری بد قسمتی ہے ہم لوگ اپنے معاشرے کے دوہرے معیار کے عین مطابق ظاہری اخلاقیات کے تحت آنے والے کسی عیب پر رُک کر رہ جاتے ہیں، اور پھر اِس تخلیق کار کا سارا ادبی کام پس پشت چلا جاتا ہے۔ میرا جی بڑی حد تک اِسی منفی رویے کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی حیدر قریشی نے چند اہم تنقیدی مسائل کی طرف محض اشارے کرنے کی بجائے انھیں بھر پور طریقے سے اُٹھایا ہے تاکہ وُہ تنقیدی دنیا میں مکالمہ پیدا کر سکیں۔
اِس کے بعد اِس خصوصی اشاعت میں ’’کوائفِ میرا جی‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی، ’’میرا جی کے بارے میں تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی کام‘‘ از ہانی السعید اور دو خطوط؛ ایک ن۔ م۔ راشد کا میرا جی کے نام اور ایک اخترالایمان کا میرا جی کے بارے میں رشید امجد کے نام خط شامل ہے۔
میرا جی کے فن پر تنقیدی مقالات کو چار مختلف حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پہلا حصّہ ’’میرا جی شناسی اور وزیر آغا‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں ڈاکٹر وزیر آغا کی میرا جی کی فکر اور فن پر مختلف اوقات میں لکھی گئی پانچ تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے۔ جس سے نہ صرف یہ کہ میرا جی کی مختلف فنی اور فکری جہات کا خوب احاطہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کی میرا جی کی شاعری مستقل ڈاکٹر وزیر آغا کے مطالعہ میں رہی ہے۔ اِن مضامین نے میرا جی شناسی میں کیا اہم کردار ادا کیا ہے اِس کے لیے اِن مضامین کے آخر میں طارق حبیب کا مفصل مضمون دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرا حصّہ ’’میرا جی کی شخصیت اور شاعری‘‘ کے عنوان سے ہے۔ لیکن یہاں ایسے مضامین پیش کیے گئے ہیں جن میں میرا جی کی اُسی لگی بندھی ’’شخصیت‘‘ سے بڑی حد تک گریز برتا گیا ہے جو اب تک ناقدین کا محبوب موضوع رہی ہے۔ اِن مضامین میں جیلانی کامران، ساقی فاروقی، مظفر حنفی اور عبداللہ جاوید کے مضامین بہت اہم کہے جا سکتے ہیں۔
تیسرے حصّے کو ’’میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے یعنی اِس حصّے میں میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ میرا جی کی تنقید پر سید وقار عظیم اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کے مضامین بلا شبہ خاصے کی چیز اور ترجمہ نگاری کے حوالے سے ’’میرا جی کا نگار خانہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہوامبشر احمد میر کا مضمون تحقیق کی بنیاد پر فراہم کردہ اہم معلومات کی وجہ سے قابلِ تعریف ہے۔
چوتھا حصّہ ’’میرا جی: نئے لکھنے والوں کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس کے عنوان سے واضح ہے کہ یہاں نئے لکھنے والوں کے میرا جی پر مضامین پیش کیے گئے ہیں۔ اِن نئے لکھنے والوں کے بارے میں حیدر قریشی اپنی گفتگو (اداریہ) میں لکھتے ہیں؛ ’’نئے مضامین کے حصول کے سلسلہ میں ایک خوش کُن پہلو یہ سامنے آیا کہ نئے لکھنے والوں نے اِس میں گہری دلچسپی لی۔ جو مضامین موصول ہوئے اُن میں سے بعض کمزور مضامین کو بھی تھوڑا بہت ایڈٹ کر کے شامل کر لیا گیا، مقصد یہ تھا کہ نئے لکھنے والے میرا جی کے مطالعہ میں دلچسپی لیں۔‘‘ حیدر قریشی کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوئی اور ہمیں یہاں بھی چند اہم مضامین پڑھنے کو ملے۔ خاص طور پر معید رشیدی کا ’’ابہام کی جمالیات: میرا جی‘‘، قاسم یعقوب کا ’’میرا جی کی نظموں کی چیستانی صورت حال‘‘، مستبشرہ ادیب کا ’’جنسی آسودگی کا خواہش مند شاعر: میرا جی‘‘، احتشام علی کا ’’میرا جی کی نظمیں: اپنے عہد کے تناظر میں‘‘ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کا ’’میرا جی کی غزل! ایک نئے لسانی پیرائے میں‘‘، شکیل کوکب کا ’’میرا جی کے گیت: ایک تعارف، ایک تجزیہ‘‘ اور سید اختر علی ’’میرا جی کی نظم ’سمندر کا بلاوا‘ اور اُس کے رنگ‘‘ خصوصی اہمیت کے حامل مضامین ہیں۔ اِن مضامین کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ نئے لکھنے والوں نے میرا جی کی نظم، گیت اور غزل؛ تینوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔
اِس کے بعد میرا جی کی شاعری کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ انیس (۱۹) گیت، تیرہ (۱۳) غزلیں اور اَسّی (۸۰) نظموں پر مشتمل یہ ایک بھر پور انتخاب ہے جس کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ حیدر قریشی نے ممکنہ حد تک میرا جی کی نمائندہ تخلیقات کا انتخاب کیا ہے اور اِس کے لیے انھیں کس قدر فکر و تامل سے کام لینا پڑا ہو گا اِس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اِس کے علاوہ میرا جی کی نثر (تنقید) کا بھی انتخاب شامل ہے گو اِس میں تشنگی کا کسی قدر احساس ہوتا ہے کیوں کہ یہاں میرا جی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ میں سے جن دو مضامین کو منتخب کیا گیا ہے اُن دونوں کا تعلق مغربی شاعروں سے ہے۔ کم سے کم اگر ایک مضمون کسی مشرقی شاعر کے حوالے سے بھی شامل کر لیا جاتا تو میرا جی کی نثری جہات کا احاطہ کافی حد تک ہو جاتا۔
’’میرا جی کو منظوم خراج عقیدت‘‘ ایک الگ حصّہ بنایا گیا ہے جس میں مختلف شعرا نے میراجی سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار، میرا جی پر نظمیں یا اُن کی زمین میں غزلیں لکھ کر کیا ہے۔ اِس کے بعد ایک بہت اہم حصّہ ’’مختلف زبانوں میں میرا جی کی نظموں کے تراجم‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اِس میں میرا جی کی چند اہم نظموں اور ایک گیت کے انگریزی، جرمن، روسی، ڈچ، اٹالین، عربی، ترکی اور فارسی جیسی آٹھ بڑی زبانوں میں تراجم شائع کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اِن تراجم کے معیار پر بات کرنا ممکن نہیں (کہ اِس کے لیے ان تمام زبانوں سے آگاہی ضروری ہے) مگر اتنا معلوم ضرور ہو جاتا ہے کہ ان بڑی زبانوں میں میرا جی کے کلام سے شغف کا عنصر موجود ہے۔
حیدر قریشی نے میرا جی پر انتظار حسین، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر امجد پرویز کے مختصر مگر جامع انگریزی مضامین بھی شامل کرنا ضروری خیال کیا جس سے اشاعت کے معیار کو یقیناًتقویت ملی ہے۔ آخر میں ’’انتظاریہ‘‘ کے ضمن میں شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون ’’میرا جی؛ سو برس کی عمر میں‘‘ شامل ہے۔ یہ مضمون اِس اشاعت کے لیے آخری لمحوں میں موصول ہوا۔ اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’میرا جی شناسی‘‘ میں یہ مضمون اہم ترین اضافہ ہے۔ اگرچہ مضمون اختصار کا شکار نظر آتا ہے (غالباً وقت کی کمی اس کی وجہ رہی ہو گی) بے شک ابھی اور تفصیل سے لکھے جانے کی گنجائش موجود تھی لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ کم وقت میں اختصار کے باوجود انھوں نے میرا جی سے ہر طرح معاملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر میرا جی کی نظم ’’بعد کی اڑان‘‘ کا تفصیلی تجزیہ خاصے کی چیز ہے۔ ایک بات شمس الرحمٰن فاروقی کی ضرور کھٹکی اور کوشش کے باوجود حلق سے نہیں اُتر سکی، لکھتے ہیں:
’’میں یہ بات کئی بار کَہہ اور لکھ چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ اقبال کے فوراً بعد آنے والے پانچ بڑے شعرا کی ترتیب میں میرا جی سب سے اوپر ہیں، پھر راشد، ان کے بعد اخترالایمان پھر مجید امجد اور سب سے بعد میں فیض ہیں۔‘‘
مسئلہ یہ نہیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے میرا جی کو ہی سرِفہرست کیوں رکھا کسی اور کو کیوں نہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شاعر کی عظمت کا قائل اسی صورت میں ہی ہُوا جا سکتا ہے جب اُسے دیگر بڑے شاعروں میں سرِفہرست رکھا جائے اور اُن بڑے شاعروں کو اُس کے سامنے چھوٹا ثابت کیا جائے؟ اور جو دو وجوہات میرا جی کو دیگر شعرا میں سرِفہرست رکھنے کی شمس الرحمٰن فاروقی نے بیان کی ہیں (تفصیل کے لیے مقالہ دیکھیے) کیا انھی وجوہات کی بنا پر ہی کوئی شاعر سرِفہرست ہوتا ہے؟ اور کیا دیگر شعرا کو سرِفہرست لانے کے لیے کچھ اور دلائل کام میں نہیں لائے جا سکتے؟ اور پھر سب سے اہم سوال یہ کہ ہم کب تک درجہ بندی کی بنیاد پر شاعروں کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتے رہیں گے۔ میرا جی کی عظمت اس بات میں ہے کہ اُن کی تخلیقات بڑی ہیں، اس لیے نہیں کہ راشد، مجید امجد، اخترالایمان اور فیض کی تخلیقات کم تر درجہ کی ہیں یا ان شعرا کے بڑا ہونے میں کوئی شک ہے۔ لہٰذا اس طرح کی ’’درجہ بندانہ تنقید‘‘ کا رواج اب ختم ہو جانا ہی بہتر ہے۔
بہر حال ’’جدید ادب‘‘ کا یہ ’’میرا جی نمبر‘‘ میرا جی شناسی میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہے گا اور اِس کا سارا کریڈٹ حیدر قریشی کو جاتا ہے جنھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اِس خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔

***
بشکریہ ادبی کتابی سلسلہ تناظر۔گجرات۔شمارہ نمبر ۲۔۲۰۱۳ء
..............................................................................

جدید ادب اور میراجیؔ نمبر
*
از:سید اختر علی
....
ناندیڑ،انڈیا

کسی زمانے میں ماہنامہ’’ایوانِ اردو‘‘ ،دہلی میں ماہیے پر مضامین پڑھے تھے۔اس میں بار بار جناب حیدر قریشی ،جرمنی کانام بھی پڑھنے میں آتا تھا۔اس وقت ذہن میں یہ بات تھی کہ جرمنی تو غیر اردو علاقہ ہے پھر وہاں سے یہ آوازکس طرح گونج رہی ہے۔کون شخص ہے وہ جو اس علاقے سے اتنے لگاؤ سے اردو کی خدمت کر رہا ہے۔بڑی حیرت ہوتی تھی۔پھر ایک عرصہ بیت گیا۔لیکن ماہیا اور اس سے جڑی تحریک کارعب اب بھی میرے دل و دماغ کے کسی کونے میں باقی تھا۔مجھے طبعیات،ریاضی اور اردو سے دلچسپی ہے۔نیٹ پر اردو کی سائٹس کی تلاش کے دوران جناب خورشید اقبال صاحب کی ’’اردو دوست ڈاٹ کام‘‘سائٹ ہاتھ لگی۔یقین جانیے نیٹ پر اس سائٹ کو دیکھ کر میری خوشی اورحیرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔حیرت اس لیے ہوئی کہ میں یہ سمجھتاتھا کہ نیٹ پر اردو کے تعلق سے کوئی کام کیوں کر ہوا ہوگا۔ اردو والے توعموماً مفاد پرست اور قدامت پسند ہیں۔پھر مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا۔مجھے خوشی ہوئی کہ اردو والے نہ تو مفاد پرست ہیں اور نہ ہی قدامت پسند ۔ بلکہ وہ بھی زمانے کے ساتھ ہیں اور اپنا خوںِ جگر بالکل مفت جلا رہے ہیں۔’’ارددوست ڈاٹ کام‘‘سے ہی میرا تعارف ’’جدید ادب ڈاٹ کام‘‘ سے ہوا۔پھر جھٹکا لگا کہ اردو کا ایک مکمل،ضخیم اور معیاری رسالہ اور وہ بھی بالکل مفت آن لائن اور کتابی شکل میں دستیاب ہے۔یہ ہے مختصر سا احوال ’’جدید ادب ‘‘،جرمنی سے شناخت کا۔
میراجیؔ کی سوّیں سال گرہ کے موقع پرجاری کیا گیا’’ جدید ادب ‘‘،جرمنی کا شمارہ نمبر۱۹(جولائی۔دسمبر2012)بحیثیت میراجی ؔ نمبر میرے پیشِ نظر ہے۔ رسالہ کے چھ سو صفحات میراجیؔ کے لیے وقف ہیں۔اس کی دستاویزی حیثیت کا اندازہ ان عنوانات سے ہوتا ہے: ۱)حیدر قریشی کی گفتگو،۲) میراجی ؔ کے کوائف،۳)میراجی ؔ پر تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی کام،۴)میراجیؔ شناسی اور وزیر آغا؛چھ مضامین ، ۵) میراجیؔ کی شخصیت اور شاعری ؛ سات مضامین،۶)میراجی ؔ کی تنقید اور ترجمہ نگاری ؛پانچ مضامین،۷)میراجیؔ :نئے لکھنے والوں کی نظر میں ؛چودہ مضامین،۸)میراجی ؔ کی شاعر ی کا انتخاب،۹)میراجی ؔ کے انیس گیت،۱۰)میراجیؔ کی تیرہ غزلیں،۱۱)میراجی کی اسّی نظمیں، ۱۲) میراجیؔ کی نثر کا انتخاب، ۱۳) میراجیؔ کو منظوم خراجِ عقیدت[۲۴غزلیں اور ۵ نظمیں]،۱۴)مختلف زبانوں میں میراجیؔ کی نظموں کے تراجم [جملہ آٹھ زبانیں:انگریزی،جرمن،روسی،ڈچ،اٹالین،عربی،ترکی،فارسی]،۱۵) انگریزی میں تین مضامین اور آخر میں۱۶) شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون:میراجیؔ :سو برس کی عمر میں۔
قطع نظر اس کے کہ حیدر قریشی کون ہیں کیا ہیں اور جرمنی میں کیوں ہیںآپ کی اردو زبان سے محبت قابلِ تحسین اور قابلِ قدر ہے ۔ اردو زبان کے تئیں آپ کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ویسے بھی اردو قوموں کی نہیں انسانوں کی زبان ہے۔روس کی اردو ادیبہ ڈاکٹر لڈ میلا وسؤیسوا نے جناب حیدر قریشی صاحب کے بارے میں لکھا کہ ’’مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پر حیرت بھی ہے اور صد رشک بھی۔سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ 24گھنٹوں کو 48گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں؟اگلی ملاقات ہوگی (انشاء اللہ ) تو آپ سے یہ منتر سیکھنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ روس کی مذکورہ مشہور و معروف ادیبہ کا یہ اعتراف حیدر قریشی صاحب کے بے لوث و ٹوٹ کر کام کرنے کی سند ہے۔
حید ر قریشی صاحب کی جمالیاتی حس غضب کی ہے۔میراجیؔ کی رنگا رنگ شخصیت کو ابھارنے کے لیے آپ نے میراجیؔ کا اتنا ہی دیدہ زیب اور رنگین سرِ ورق بنایا ہے۔اور میراجی ؔ کی شخصیت و فن کو رنگوں کی زبان میں بیان کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے۔ سرِ ورق پر دیا گیا میراجی ؔ کا شعر
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں

ان کی شخصیت کا صحیح ترجمان ہے۔اس محنت کے لیے بھی آپ کو داد دینے کے لیے جی چاہتا ۔
وطن سے دوری کا درد کسے نہیں ستاتا۔میراجی نےؔ تو سب کچھ تج دیا تھا۔پھر اسے یہ درد کیسے نہیں رلاتا۔اس نے ڈوب کر اور بہت ڈوب کر نظم ’’مجھے گھر یا دآتا ہے‘‘لکھی۔نظم کی ابتدایوں ہوتی ہے:
’’سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمین؟کہہ دو!
یہ پھیلا آسمان اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا؟
ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں
کوئی دل سے پھسل جاتی کوئی سینہ میں چبھ جاتی
انہی باتوں کی لہروں پر بہا جاتا ہے یہ بجرا
جسے ساحل نہیں ملتا‘‘

نظم کا تیسرا حصہ ہے:
’’سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمین،کہہ دو!
وہ کیسی مسکراہٹ تھی ،بہن کی مسکراہٹ تھی
میرا بھائی بھی ہنستا تھا
وہ ہنستا تھا،بہن ہنستی ہے اپنے دل میں کہتی ہے
یہ کیسی بات بھائی نے کہی،دیکھو
وہ امّاں اور ابّا کو ہنسی آئی
مگر یوں وقت بہتا ہے تماشا بن گیا ساحل
مجھے ساحل نہیں ملتا‘‘

اس نظم کا انتخاب بھی بہت معنی خیز ہے۔حیدر قریشی وطن سے دور جرمنی میں سکونت پذیر ہیں۔انہیں بھی اپنے گھر کی یاد آتی ہوگی ۔ انہیں بھی وطن سے دوری کا درد ستاتا ہوگا۔لہٰذا احقر کی نظر میںآپ نے میراجیؔ کی زبان میں اپنے اسی درد کی عکاسی اس نظم کو سرِ ورق کے پیچھے دے کر کی ہے۔میراجی ؔ کی یہ نظم وطن سے دورہر شخص کے دل کی آواز بن گئی ہے۔ اس نظم کی ٹیپ کی سطر ہے ’ مجھے ساحل نہیں ملتا‘۔
میراجی ؔ پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن ہمیشہ ان کی متنازعہ شخصیت ابھر کر سامنے آئی اور ان کا فن پیچھے رہ گیا۔شمار ہ میں شامل متذکرہ بالا عنوانات کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نمبر میں ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس لحاظ سے یہ نمبر منفرد اور کافی اہم ہو گیا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے مرتب کردہ میراجیؔ کے کوائف اس نمبر میں شامل ہیں۔مصر کے ہانی السعید نے میراجیؔ پر ہوئے تحقیقی ،تنقیدی اور تخلیقی کام کا احوالِ واقعی پیش کیا ہے۔اس فہرست کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ میراجی ؔ پر سب سے زیادہ کام پاکستان میں ہوا۔ہندوستان میں کمار پاشی اور ساہتیہ اکادمی،دہلی نے آپ پر کتابیں شائع کیں اور ’شعر و حکمت‘ حیدر آباد،دکن(1) نے میراجی ؔ نمبر نکالا۔اور مغربی زبانوں میں بھی میراجیؔ پر کام ہو ا۔
خطوط کسی شخصیت کے مکان کی کھڑکیاں ہیں۔اس سے اس شخصیت کے مزاج اور فکر کا پتا چلتا ہے۔ شایداسی پیشِ نظر اس نمبر میں میراجیؔ کے نام ن.م.راشد کا خط اور میراجی ؔ کے بارے میں اخترالایمان کے خط کو فہرست میں اوّلیت کا مقام دیا گیا ہے۔ان خطوط سے میراجیؔ کی شخصیت اور فن کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں۔مثلاًمیراجیؔ کی مشرق و مغرب کے ادب پر گہری نظر تھی۔وہ مغرب کی نقالی کو پسند نہیں کرتے تھے۔میراجیؔ کی تنقیدی بصیرت بڑی روشن اور دو ٹوک تھی۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی ؔ شناسی کے ذیل میں بہت کام کیا ہے۔جناب طارق حبیب صاحب نے اپنے مضمون [’’میراجیؔ شناسی‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ]میں لکھا کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ نظیر اکبر آبادی،محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالیؔ ، اسمٰعیلؔ میرٹھی،چکبستؔ ،تلوک چند محرومؔ ،محمد اقبالؔ اور ن.م.راشدجیسے شعرا کے یہاں دھرتی سے وابستگی کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن دھرتی سے اٹوٹ اور جذباتی ہم آہنگی میراجی ؔ کے یہاں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی نظموں میں ہندو دیومالائی عناصر،اساطیر،بدھ مت اور وشنو مت کے ذکر کے ذریعہ اپنی روح کو دھرتی کی روح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔اسی لیے میراجیؔ کو دھرتی پوجا کا شاعر کہاگیا ہے۔
اس کے بعد میراجیؔ کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں اور ان کے فنِ شاعری و نثر نگاری پر مختلف ادیبوں نے بڑی عرق ریزی سے خامہ فرسائی کی ہے۔بعضوں نے ان کی تنقیدی بصیرت و حسّیت پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
جناب حیدر قریشی صاحب کی یہ بڑی کشادہ دلی ہے کہ آپ نے اپنے اس دستاویزی مجلّہ میں میراجیؔ پر لکھنے والے نئے قلمکاروں کو شامل کر کے ان کی ہمت افزائی کی ہے۔یعنی نئے چراغوں کی تازہ دم روشنی میں میراجیؔ شناسی کے نئے گوشوں کی جویائی کا کام آپ نے انجام دیا ہے۔یقیناًاس قابلِ قدر اقدام سے میراجیؔ فہمی کے ذیل میں نئے جہانوں کی سیاحی کا سالطف حاصل ہوگا۔اس باب کے تحت اس شمارہ میں جملہ چودہ(۱۴) مضامین شامل ہیں۔جس میں سے دو مضامین خود جناب حیدر قریشی صاحب کے ہیں۔یعنی جناب حیدر قریشی صاحب نے خود کو نئے لکھنے والوں کی فہرست میں رکھا ہے!!یہ بڑی حیرت میں ڈالنے والی بات ہے۔بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔یہ طرزِ عمل شرافت،سادگی،انکساری وغیرہ پر دال ہے۔جناب معید رشیدی صاحب نے اپنے طویل مضمون میں میراجیؔ کے ابہام کے سایوں کی جمالیاتی دھوپ چھاؤں کوبڑے خوبصورت انداز میں موئے قلم سے مصوّر کیا ہے۔آپ نے کہا کہ ابہام لفظ کے خمیر میں ہے اور یہ مانوس و ناموس کے درمیان کا ایک سلسلہ ہے۔لہٰذا اسی تناظر میں میراجی ؔ کو سمجھا جا سکتا ہے۔جناب قاسم یعقوب صاحب نے بھی میراجی ؔ کی نظموں کی چیستانی صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔آپ نے لکھا کہ ’میراجیؔ کو پڑھتے ہوئے شدید قسم کے فنّی ابہام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘(ص۱۸۶)۔اور آگے لکھا کہ’میراجی کو سمجھنے کے لیے ان کی نظموں کو نظم کے دائرے سے نکال کر گیت کے قریب لانا ہوگا۔ نظمِ میراجی کا سارا Textureگیت کی فضا کے قریب ہے۔وہ گیتوں میں اپنے اہداف کے بہت قریب کھڑے نظر آتے ہیں۔گیت ہی اصل میں ان کے فن کا اظہاریہ ہے۔‘(ص۱۹۳)۔محترمہ ہاجرہ بانو صاحبہ کے مضامین میں اردو زبان کی شیرینی کاسا لطف پایا جاتا ہے۔سید اختر علی(راقم الحروف)نے اپنے مضمون ’میراجیؔ کی نظم ’’سمندر کا بلاوا‘‘اور اس کے رنگ‘میں میراجیؔ کے لفظ اور معنی کے ستون پر ایستادہ خیالات کے پُل کو مجسّم کرنے کی کوشش کی ہے۔
میراجیؔ کی مقبولیت کا اندازہ ان کو پیش کیے گئے منظوم خراجِ عقیدت سے بھی ہوتا ہے۔شمارہ میں شامل چوبیس(۲۴) غزلیں اور پانچ(۵) نظمیں اس بات کی شاہد ہیں۔ان غزلوں میں سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:
ایک تھا جوگی سدھ بدھ اپنی رفتہ رفتہ بھول گیا
عشق میں ایسا ڈوب گیا وہ نام ہی اپنا بھول گیا
میراجی کی غزلیں نظمیں ہیں برجستہ افضل جی
جب بھی پڑھنے بیٹھا ہوں میں اپنا لکھا بھول گیا
(افضل چوہان،ص۴۸۴)
مجھے حیدرؔ نے دکھائی یہ زمیں میراجیؔ
مرے اقبال میں اس کی بھی خطا شامل ہے
(ڈاکٹر ریاض اکبر،ص۴۸۰)
کچھ تو خبر لے ،نقشِ پا کا یونہی ساتھ نبھانے میں
کتنی سانسیں ٹوٹ چکی ہیں تیرے آنے جانے میں
(وسیم فرحت کارنجوی،ص۴۸۸)

شمارہ کے آخر میں ’’انتظاریہ‘‘کے تحت جناب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا مضمون’’میراجیؔ :سو برس کی عمر میں‘‘ شامل ہے۔یہ مضمون میراجیؔ سے محبت رکھنے والوں کے لیے واقعتاً ’انتظاریہ ‘ہی ہے۔کیونکہ اس مضمون میں میراجیؔ کی شخصیت اور ان کے فن کے تعلق سے ان کے ہم عصر ادیب و شعرا ء و بعد کے ادیب و شعراء کی آراء کا اجمالی یا تفصیلی ذکر آگیا ہے۔جناب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے لکھا کہ محمد حسن عسکری صاحب وہ واحد خاکہ نگار ہیں جنھوں نے میراجیؔ کی شخصیت کے متنازعہ پہلوؤں سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کے فن کے گوشوں کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہر حال اردو دنیا میں جدید ادب کا یہ شمارہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔اور شمارہ کے بیک کَوَر کے اندر دیے گئے میراجیؔ کے ’گیت‘ کے آخری سطور
رات نئی،رات نئی،
رات نئی اب آئے گی
چندر ماں کو ساتھ لائے گی
نور کی ندی بہہ نکلے گی ایسا رنگ جمائے گی۔

کے مصداق یہ شمارہ بھی خوب رنگ جمائے گااور اس سے نورِ ادب چہار سو پھیل جائے گا۔
.................................................

(1)......وضاحتی نوٹ:
شعرو حکمت ۔حیدرآباد دکن نے میرا جی نمبر شائع نہیں کیا تھا۔میرا جی کا گوشہ شائع کیا تھا۔بعض دیگر رسائل نے بھی میرا جی کے گوشے شائع کیے تھے۔جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبر تاریخی اعتبار سے میرا جی پر کسی بھی رسالہ کا شائع ہونے والا پہلا نمبر ہے۔سو سال میں پہلا میرا جی نمبر۔
.............................................

Donnerstag, 27. Dezember 2012

سب کے اپنے میرا جی



سب کے اپنے میرا جی
.............................

سعید شباب  
(مدیر ادبی کتابی سلسلہ نایاب۔خان پور)


مئی۲۰۱۲ء سے مئی ۲۰۱۳ء تک میرا جی صدی کا سال ہے ۔اس عرصہ میں غیر متوقع طور پر ادبی دنیا نے میرا جی کی طرف غیر معمولی توجہ کی۔بے شک یہ توجہ اس سطح کی تو نہیں ہے جس سطح کی توجہ فیض اور منٹو کو دی گئی ہے۔لیکن اس عرصہ میں جس حد تک میرا جی کا ذکرسننے میں آتا رہا ہے وہ اردو کے منظر نامہ میں بڑی حد تک غیر معمولی کہا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا جی کا جتنا ادبی حق بنتا ہے،وہ ابھی انہیں نہیں ملا۔لیکن جس بے رحمی سے انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اسے مد نظر رکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اب چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ادب و صحافت سے وابستہ افراد میرا جی پر لکھنے لگے ہیں۔لیکن یہاں ادبی دنیا کی گروہ بندیوں میں بعض افراد کی گروہی مصلحت پسندی،ذاتی ترجیحات یا تعصبات اور بعض معاملات میں منافقت کے باعث منفی رویے بھی سامنے آئے ہیں۔میں ایسے چند رویوں کا اس مضمون میں ذکر کرنا چاہتا ہوں،ان کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں تاکہ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ کسی طور ڈنڈی مار کر اپنا کوئی مقصدپورا کر لے گا۔لیکن اس سے پہلے میں میرا جی پر ہونے والے چند مثبت ادبی کاموں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کی جانب سے اپریل ۲۰۱۰ء میں ایک کتاب بہ عنوان’’میرا جی‘‘شائع کی گئی۔اس کے مرتبین ڈاکٹر رشید امجد اور ڈاکٹر عابدسیال ہیں۔ ۴۰۰ سے زائد صفحات کی اس کتاب میں میرا جی پر لکھے گئے تازہ اور پرانے مضامین کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ستمبر ۲۰۱۱ء میں ارشد خالد نے عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے شمارہ نمبر ۱۴میں میرا جی کا ایک مختصر لیکن عمدہ گوشہ شائع کیاہے۔اس میں اخترالایمان کا ایک نایاب مکتوب بنام ڈاکٹر رشید امجد،حیدر قریشی کا مضمون’’میرا جی شخصیت اور فن‘‘،ڈاکٹرناصر عباس نیرکا ’’سمندر کا بلاوا‘‘کا ساختیاتی تجزیاتی مطالعہ کے ساتھ میرا جی کی چار نظمیں اور ایک غزل شائع کی گئی ہے۔اسی شمارہ میں ارشد خالد نے اپنے اداریہ میں تحریر کیا ہے کہ:
’’ مختلف تعصبات کی بنا پر بعض شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کرنے کا رویہ بھی ہمارے یہاں کچھ بڑھنے لگا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال میرا جی اور راشد ہیں۔اگرچہ مقتدرہ نے فیض صدی کے ساتھ راشد صدی اور میرا جی صدی کے طور پر ان کے بارے میں بھی کتابیں مرتب کرائی ہیں،اور یہ ایک مثبت اشارا ہے۔راشد کے بارے میں نسبتاََ بہتر توجہ کی جانے لگی ہے لیکن میرا جی کو عام طور پر ابھی بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔اس رویے میں تبدیلی لانے کے لیے اس بار میرا جی کا مطالعۂ خاص پیش کیا جا رہا ہے۔امید ہے اس سے میرا جی کی تفہیم کے امکانات کھل سکیں گے اور ادبی دنیا سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کر سکے گی۔‘‘
۲۰۱۱ء میں یعنی میرا جی صدی کا سال شروع ہونے سے پہلے انٹرنیٹ پر ایک بلاگ قائم کیا گیا۔اس بلاگ پر کسی بھی ویب سائٹ سے زیادہ میرا جی سے متعلق مواد موجود ہے۔میرا جی سے متعلق تازہ ترین مباحث بھی یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
http://poetmeeraji.blogspot.de/
۲۰۱۱ء ہی میں مصر سے ایم اے کا مقالہ میرا جی پر لکھا گیا۔جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر میں اس کی تفصیل ان الفاظ میں درج ہے۔
’’ حرکۃ التجدید فی الشعر الاردی الحدیث عند میراجی(جدید اردو شاعری میں جدت پسندی کی تحریک میراجی کے آئینے میں)، ھانی السعید, رسالۃ مقدمۃ الی قسم اللغۃ الاردیۃ بکلیۃ اللغات والترجمۃ لنیل درجۃ الماجستیر فی اللغۃ الاردیۃ وآدابھا، جامعۃ الازہر, القاھرۃ, مصر، 2011م. ‘‘
مجموعی طور پر میرا جی پر ایم اے کی سطح کے پانچ مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں۔۲۰۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اشفاق رضا نے’’اردو میں میرا جی شناسی‘‘کے عنوان کے تحت اپنا ایم فل کا مقالہ مکمل کیا۔ مجموعی طور پر میرا جی پر ایم فل سطح کے پانچ مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں۔ اسی برس پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ایک طالبہ نے میرا جی پر پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن کرائی۔ اس کا علم تب ہوا جب انہوں نے عکاس کے مدیر ارشد خالد کو فون کرکے ان سے عکاس انٹرنیشنل کا شمارہ نمبر ۱۴ منگایا اور اسی دوران بتایا کہ وہ جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبر انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر چکی ہیں۔ اس سے پہلے ڈاکٹر رشید امجد میرا جی پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں میرا جی پر کوئی کام ہوا ہو تو میرے علم میں نہیں ہے۔
۲۰۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں میرا جی پر سیمینار ہوا۔اسی برس انگلینڈ میں منٹو اور میرا جی پر مشترکہ اردو کانفرنس ہوئی۔اس میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے شرکت کی اور اس میں شمس الرحمن فاروقی کا مقالہ بھی پڑھ کر سنایا گیا۔اسی برس امریکہ کے حلقہ ارباب ذوق کی جانب سے بھی میرا جی کانفرنس کی خبر سننے میں آئی تھی لیکن اس کی رپورٹ میری نظر سے نہیں گزری۔اسی برس دہلی میں منٹو اور میرا جی پر تقریبات ہوئیں۔یہاں بھی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے میرا جی کی ادبی خدمات کا شاندار الفاظ میں اعتراف کیا۔کراچی کی اردو کانفرنس میں میرا جی سیشن رکھا گیا۔اس میں سب سے اہم تقریر شمیم حنفی کی تھی۔انتظار حسین کے ۹ نومبر کے کالم کے مطابق لمز میں میرا جی کی یاد میں تقریب ہوئی۔مبارک احمد کے بیٹے ایرج مبارک نے اپنی ادبی انجمن کا اجتماع میرا جی سے منسوب کیا۔
میرا جی صدی کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر کام جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبرشائع کرنا ہے۔شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۲ء ہے۔یہ صرف میرا جی صدی کی نسبت سے نہیں بلکہ تاریخی طور پر بھی میرا جی پر شائع کیا جانے والا کسی ادبی جریدہ کا پہلا میرا جی نمبرہے۔ جدید ادب جرمنی کے مدیر حیدر قریشی نے یہ تاریخ ساز کام کیا ہے۔خیال رہے کہ سال ۲۰۱۱ء میں میرا جی کا بلاگ تعمیر کرنا بھی حیدر قریشی ہی کا کارنامہ ہے۔جدید ادب کے میرا جی نمبر میں ان کی شخصیت کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے لیکن ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن پر توجہ کی گئی ہے۔ ان کے فن کی مختلف اور تمام جہات پر متنوع مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔نہایت معتبر اور اہم لکھنے والے ادیبوں اور نقادوں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔میرا جی کی غزلوں،نظموں اور گیتوں کا ایک بہترین انتخاب شامل کیا گیا ہے۔میرا جی کے چند اہم مضامین اور تجزیے شامل کیے گئے ہیں۔میرا جی کی نظموں کے انگریزی،جرمن،روسی،ڈچ،اٹالین،عربی،ترکی،فارسی،آٹھ زبانوں میں ترجمے شامل کیے گئے ہیں۔ان تراجم کے ساتھ انگریزی زبان میں میرا جی پر تین مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔میرا جی کی غزلوں کی زمین میں غزلیں کہی گئی ہیں اور ان کے بارے میں نظمیں لکھی گئی ہیں۔اس گوشہ میں ندا فاضلی اور ایوب خاور سے لے کر نئے لکھنے والے تک شامل ہیں۔یہ تاریخ ساز میرا جی نمبر ۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے،اور میرا جی شناسی میں مستقل اور دستاویزی حیثیت کا حامل بن گیا ہے۔
جدید ادب کے میرا جی نمبر کے بعد آصف فرخی نے ڈیلی ڈان کی ۴ نومبر۲۰۱۲ء کی اشاعت میں میرا جی پر پانچ مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین ایک ساتھ شائع کیے۔ان کے رسالہ دنیا زاد میں میرا جی پر دو مضامین الگ سے شامل کیے گئے ہیں۔
میرا جی کے بارے میں ہونے والے کام کی یہ ایک اجمالی جھلک ہے۔ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے اپنے میرا جی کو دیکھا ہے۔اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ میرا جی کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن کی طرف توجہ ہونے لگی ہے۔اب میں میرا جی صدی کے ضمن میں ہونے والے بعض منفی رویوں کا ہلکا سا ذکر کروں گا۔
ظفر اقبال نے جدید ادب کے میرا جی نمبر پر کالم لکھتے ہوئے میرا جی کے خلاف محض اس لیے لکھا کہ اس نمبر میں مظفر حنفی کا ایک مضمون شامل تھا جس میں یہ انکشاف بھی تھا:
’’میرا جی کے متفرق اشعار پڑھتے ہوئے مجھے بے ساختہ ظفر اقبال یاد آگئے۔تین چار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
: ملائیں چار میں گر دو تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے دو تو باقی چار رہتے ہیں
 
کیا پوچھتے ہو ہم سے یہ ہے حالتِ جگر
پی اس قدر کہ کٹ ہی گیا آلتِ جگر
 
چہرے کا رنگ زرد، مئے ناب کا بھی زرد
یہ رنگ ہیں کہ رنگ ہے پیشاب کا بھی زرد
 
دن میں وظیفہ اس کا کئی بار کیجیے
اپنے جگر کے فعل کو بیدار کیجیے

یعنی زبان کی توڑ پھوڑ اور مضامین کی اکھاڑ پچھاڑ کا جو کام ظفر اقبال آج کر رہے ہیں،اُس کا آغاز میرا جی نے ۷۰۔۸۰ برس پہلے کر دیا تھا۔دیکھیں وہ میرا جی کے اس فیضان کا اعتراف کب کرتے ہیں۔‘‘
اس انکشاف کے پیش نظر ظفر اقبال کی مخالفت قابلِ فہم ہے اور اس کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
انتظار حسین نے اپنے ۹ نومبر۲۰۱۲ کے کالم میں دو ڈنڈیا ں ماری ہیں۔ایک تو یہ تاثر دیا کہ انگریزی اخبار ڈان نے انگریزی کے پانچ مضامین ایک ساتھ شائع کیے،اور اس کے بعد جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبرشائع ہوا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبر انتظار حسین کو اگست،ستمبر میں مل چکا تھا۔جدید ادب کی اشاعت کی خبر ملنے کے بعد ڈان نے مضامین شائع کیے۔دوسری ڈنڈی انہوں نے یہ ماری کہ میرا جی کے جنازہ کو استہزاء کا نشانہ بنایا۔نتیجہ یہ نکلا کہ حیدر قریشی نے انٹرنیٹ پر وضاحت کر دی کہ بمبئی میں قیام پاکستان کے بعد میرا جی کے پاکستانی ہونے کی وجہ سے ان کی وفات پر زیادہ لوگ نہیں آئے۔ہر کوئی ڈرا ہوا اور محتاط تھا۔جواباََحیدر قریشی کو پھر یہ بھی یاد دلانا پڑا کہ راشد کی میت کو تو جلادیا گیا تھا۔مجید امجد کی میت گندگی کے ٹرک پر بے رحمانہ طریق سے ان کے گھر بھجوائی گئی تھی۔یہ وضاحتیں تکلیف دہ ہیں لیکن میرا جی کے بارے میں انتظارحسین جیسے ٹھنڈے میٹھے ادیب کے گرم اور کڑوے اعتراض کے بعد ایسا جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ظفر سید کے نام سے بی بی سی کی ویب سائٹ پر کسی صحافی نے میرا جی پر ۲۵دسمبر کو مضمون شائع کیا ہے،یہ مضمون ۲۷ دسمبر۲۰۱۲ء کو دہلی کے روزنامہ ہمارا مقصدنے شائع کیا ہے۔اس مضمون میں میرا جی کے بارے میں بیان کی گئی کوئی ایک اہم بات،کوئی اطلاع ، ایسی نہیں ہے جو جدید ادب کے میرا جی نمبر میں موجود نہ ہو۔لیکن موصوف نے میرا جی صدی کی مناسبت سے لکھا ہے:
’’لیکن اس تمام ہاؤ ہو میں کسی کو ایک نام یاد ہی نہ رہا، یا اگر یاد بھی رہا تو محض سر سے بوجھ اتارنے کی مانند۔۔۔۔۔ اس سال کو منٹو صدی کے ساتھ ساتھ میرا جی صدی کے طور پر بھی منایا جانا چاہیے تھا کیوں کہ میرا جی اور سعادت حسن منٹو نہ صرف ایک ہی سال (1912) بلکہ ایک ہی مہینے (مئی) میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن سوائے جرمنی سے شائع ہونے والے ایک رسالے کے میرا جی نمبر، اور کراچی میں اردو کانفرنس کے ایک اجلاس کے علاوہ کہیں کچھ دیکھنے سننے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔‘‘
میں اپنے مضمون میں بیان کر چکا ہوں کہ میرا جی صدی کے آغاز سے پہلے ہی ان پر کام ہونا شروع ہو گیا تھا اور وہ کام بوجھ اتارنے والے انداز سے نہیں بلکہ سچے دل سے ہونے لگا تھا۔بس یہ کہ ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کام کر رہا تھا۔ظفر سید نامی بی بی سی کے صحافی کی تحقیق کی خامی ہے یا پھر علمی دیانت داری کے منافی عمل کہ وہ میرا جی پر ہونے والے اتنے سارے کام سے بے خبر ہیں۔اور جتنا باخبر ہیں،وہاں بھی ان کی ’’دیانت داری ‘‘کی انتہا ہے کہ صرف جرمنی کے ایک رسالہ کا ذکر کررہے ہیں۔ جدید ادب جرمنی کا نام لکھتے ہوئے ان کا قلبی و ذہنی انقباض دیدنی ہے۔ان کا یہ انقباض بجائے خود بہت کچھ کہہ رہا ہے۔صرف کراچی کی اردو کانفرنس والی بات بھی خلافِ واقعہ ہے۔میں سات تقریبات کا ذکر کرچکا ہوں۔ان میں سے امریکہ کی تقریب کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا،باقی چھ تقریبات تو سال ۲۰۱۲ء میں ہوچکی ہیں۔میراجی شناسی کے باب میں ڈاکٹروزیر آغا کے پانچ مضامین سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔صحافیانہ سطح کا کوئی جملہ لکھ کر کسی کے علمی و ادبی کام کو دھندلانااتنا آسان نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ ظفر سید کسی دوسرے نقاد کی راہ دیکھنے کی بجائے خود وہ کام کر دکھائیں ۔ان کی نیت مزید واضح ہو جائے گی۔جب وہ ان کی شخصیت کو نظر انداز کرکے ان کے فن کی طرف توجہ کریں گے تو شاید اپنی طرف سے کوئی کام کی بات بھی لکھ جائیں۔ابھی تک تو انہوں نے جو لکھا ہے ،ان میں سے ایک بھی علمی نکتہ ،کوئی کام کی بات ایسی نہیں جو جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر سے نہ لی گئی ہو۔
ظفر سید کے مضمون کو مد نظر رکھتے ہوئے امید ہے کہ آئندہ بی بی سی کے فورم کو وہاں کے بعض صحافی حضرات اپنے کسی ذاتی تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھائیں گے اور ادبی حقائق کو اتنا بری طرح مسخ نہیں کریں گے۔میرا جی شناسی کا مثبت اندازسامنے لایا جائے گا تو میرا جی کے چاہنے والے لازماََ خوش ہوں گے۔یہ ادبی دیانت داری بھی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saeed Shabab F/183 Mohalla Khokhran,Khanpur,Distt.Rahim yar Khan,Pakistan
e mail: saeedshabab@yahoo.com
مطبوعہ روزنامہ مقصد دہلی۔۲۸دسمبر ۲۰۱۲
 

روزنامہ نادیہ ٹائمز دہلی۔۲۸دسمبر ۲۰۱۲

http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=944 
............................................................................
سعید شباب کے مضمون میں ظفر سید کے جس مضمون کا ذکر ہے 
وہ یہاں نیچے دیا جا رہا ہے۔
...................................................................


میرا جی: جنسی مریض یا جینئس؟

ظفر سید

دو ہزار دس فیض صدی تھی، دو ہزار گیارہ راشد صدی، دو ہزار بارہ منٹو صدی۔ اس دوران اردو کے ان گراں ڈیلوں پر درجنوں کتابیں تحقیقی و تنقیدی کتابیں چھاپی گئیں، پر مغز سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی گئیں، الیکٹرانک میڈیا نے خصوصی پروگرام ترتیب دیے، ادبی رسالوں نے خاص نمبر چھاپے۔

لیکن اس تمام ہاؤ ہو میں کسی کو ایک نام یاد ہی نہ رہا، یا اگر یاد بھی رہا تو محض سر سے بوجھ اتارنے کی مانند۔ وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔
اس سال کو منٹو صدی کے ساتھ ساتھ میرا جی صدی کے طور پر بھی منایا جانا چاہیے تھا کیوں کہ میرا جی اور سعادت حسن منٹو نہ صرف ایک ہی سال (1912) بلکہ ایک ہی مہینے (مئی) میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن سوائے جرمنی سے شائع ہونے والے ایک رسالے کے میرا جی نمبر، اور کراچی میں اردو کانفرنس کے ایک اجلاس کے علاوہ کہیں کچھ دیکھنے سننے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا میرا جی کا فن اختر شیرانی کی طرح وہ خوش نظر بیل تھی جو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئی لیکن اس کے اندر دوام کے بیج نہیں تھے؟لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ میرا جی بہ ہر طور راشد، فیض اور مجید امجد کے ساتھ ساتھ جدید اردو شاعری کے ارکانِ اربعہ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے جدید شعرا کی جڑیں بھی میرا جی کے چھتنار کے اندر تلاش کی جا سکتی ہیں۔
میرا جی پر جنسی کج روئی، بے راہ روی اور مریضانہ شخصیت کے ایسے ایسے اشتہاری پوسٹر چسپاں کر دیے گئے کہ اصل میرا جی کے نقش و نگار کہیں چھپ کر رہ گئے۔ میرا جی کے نادان دوستوں اور بدخواہ حریفوں نے ان کی ذہنی و جسمانی غلاظتوں کے وہ خاکے اڑائے کہ انھیں عام انسانوں کی دنیا سے الگ تھلگ کوئی جناتی مخلوق بنا کر رکھ دیا۔ شہر کے لوگ تو ظالم تھے ہی، خود میرا جی کو بھی مرنے کا کچھ ایسا شوق تھا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے گرد لپیٹے ہوئے خول کے اندر ہی محفوظ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے:
دھرتی پوجا کی مثال؟
وزیر آغا نے میرا جی کو قدیم یونان کے کردار کی طرح ’دھرتی پوجا‘ کی چارپائی پر یوں لٹا دیا کہ اگر پاؤں لمبے پڑ گئے تو انھیں قطع کر دیا اور اگر چارپائی لمبی ہو گئی تو شاعر کو کھینچ کر لمبا کر دیا۔چند نصابی تحریروں سے قطع نظر اگر کسی نقاد نے میرا جی پر جم کے لکھا تو وہ وزیر آغا ہیں۔ لیکن انھوں نے میرا جی کو قدیم یونان کے کردار کی طرح ’دھرتی پوجا‘ کی چارپائی پر یوں لٹا دیا کہ اگر پاؤں لمبے پڑ گئے تو انھیں قطع کر دیا اور اگر چارپائی لمبی ہو گئی تو شاعر کو کھینچ کر لمبا کر دیا۔ گویا میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو۔
میرا جی پر سب سے بڑا الزام ابہام کا لگا۔ اس شاعری کو الجھی ہوئی شخصیت کا مظہر قرار دے کر اس پر انتشار اور پراگندگی کا ٹھپا تو لگا دیا گیا لیکن یہ سوچا ہی نہ گیا کہ ابہام تو اچھی شاعری کی روح ہوتا ہے۔ سیدھی سادی بات سے بڑا فن تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ غالب کہہ گئے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ ویسے بھی بقول مشتاق یوسفی: جو شعر بیک وقت دو ہزار سامعینِ مشاعرہ کی سمجھ میں آ جائے وہ بڑا شعر نہیں ہو سکتا۔
چاہے خاکہ نگار کچھ بھی کہیں، شواہد بتاتے ہیں کہ میرا جی بے حد سلجھی ہوئی اور منظم شخصیت کے مالک تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ صرف 37 برس کی عمر میں وہ ایک نسل کے برابر کام چھوڑ گئے ہیں۔ ذرا اس’نفسیاتی مریض‘ کے کام پر ایک نظر دوڑائیے:
* 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں، 23 مختلف زبانوں کے شعرا کے تراجم پر مبنی 225 نظمیں اور متفرق چیزیں
* تین برس ریڈیو پاکستان کی باقاعدہ ملازمت
* اپنے دور کے معروف ادبی رسالے ادبی دنیا کے نائب مدیر
* ماہنامہ خیال کے مدیر
* اردو تنقید میں پہلی بار نظموں کے تجزیوں کی کتاب ’اس نظم میں‘۔
* حلقہ اربابِ ذوق کی آبیاری، جلسوں میں بڑھ چڑھ کر شرکت اور جدید نظم نگاروں کی ایک نسل کی قیادت کیا یہ کام کوئی الجھا ہوا شخص کر سکتا ہے؟
میرا جی اپنے گیتوں، غزلوں، تراجم اور خاص کر تنقیدی مضامین میں کہیں بھی الجھے ہوئے نہیں لگتے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ منظوم تراجم سے زیادہ کوئی اور صنف ڈسپلن اور ضبطِ نفسی کی متقاضی نہیں ہوتی۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے ہیں۔ انھوں نے عمر خیام کی رباعیات کو جس سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنچایا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔
پھر نظموں پر تنقید میں میرا جی جس قدر منطقی انداز میں خشت خشت اپنا استدلال قائم کرتے اور اپنا تھیسس قائم کرتے چلے جاتے ہیں وہ کسی پراگندہ ذہن کا کام نہیں ہو سکتا۔
تو پھر کیا بات ہے کہ وہ شخص جو اپنی غزلوں، گیتوں، مضامین اور منظوم تراجم میں بے حد یکسو ہے، اس کی نظمیں اس قدر منتشر ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہم میرا جی کے نظری شعر ہی کو سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں؟
میرا جی کے اسلوب کی سب سے ظاہری پرت ان کی زبان ہے۔ جہاں راشد اور فیض جدید ہوتے ہوئے بھی قدیم زبان اوراسالیب کی خوشہ چینی سے دامن نہ بچا سکے، وہیں میرا جی نے پوری دلجمعی سے سادہ اور سلیس پیرایہ اختیار کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جدید نظم کا جو چشمہ پھوٹ کر آگے چل کر دریا بنا، اس نے راشد و فیض کو ترک کر کے میرا جی ہی کی زبان اختیار کی۔
میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشتاق قاری تھے۔ انھوں نے وہاں سے ایک چیز جو بطورِ خاص برآمد کی وہ شعور کی رو کی تکنیک ہے۔ شعور کی رو انیسویں صدی کے یورپ میں وضع کی جانے والی وہ تکنیک ہے جس میں مصنف قاری کو اپنے ذہن تک براہِ راست رسائی کا موقع دے کر تخلیقی عمل میں شریک کر لیتا ہے۔ اس میں خیالات کی گاڑی کبھی بھی معنی کے انجن کے پیچھے پیچھے افق میں گم ہوتی ہوئی سیدھی پٹری پر نہیں چلتی بلکہ ڈبے ایک دوسرے کو ٹکر مارتے، الٹتے، گرتے ہیں، اور ٹیڑھی میڑھی پٹریاں ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ایک دوسری کو کاٹتی، اوورٹیک کرتی ہوئی، یا گراموفون کی اٹکی سوئی کی طرح اپنے آپ کو دہرائے چلی جاتی ہیں۔
میرا جی نے یقیناً ٹی ایس ایلیٹ اور جیمز جوئس وغیرہ کے ہاں شعور کی رو کے تجربات دیکھے ہوں گے۔ بلکہ انہوں نے اسی تکنیک میں لکھی گئی ایلیٹ کے شہرہ آفاق نظم ’لَو سانگ آف جے الفرڈ پروفراک‘ سے کسی حد تک متاثر ہو کر اپنی نظم ’ کلرک کا نغمہ محبت‘ لکھی تھی۔
میرا جی کی اکثر’الجھی‘ ہوئی نظمیں شعور کی رو کی تکنیک میں لکھی ہوئی ہیں، جس میں ادیب قاری کو اپنے ذہن تک رسائی دیتا ہے۔ لیکن کیسا ذہن؟ میرا جی کا ذہن؟ اسی میرا جی کا ذہن جو کج روی، کج مزاجی، انتشار، اور پراگندگی کا منھ بولتا اشتہار ہے؟
میرا جی کا نام آتے وقت ذہن میں ان کی ایک تصویر آتی ہے: جٹادھاری زلفیں، کانوں میں بڑے بڑے بالے، نوکیلی گھنی مونچھیں، اور دور کہیں گھورتی ہوئی آنکھیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ یہ تصویر بھی اصل میرا جی کی نہیں ہے بلکہ انھوں نے ایک فلم میں سادھو کا کردار ادا کیا تھا، یہ اس کردار کی تصویر ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا جی اپنی اصل زندگی میں بھی کوئی کردار ادا کر رہے تھے؟
اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری میرا جی کے میرا سین سے عشق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب میرا جی کے دوستوں نے انھیں افسانہ بنانا چاہا تو بے تامل بن گئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی اس افسانے کو نبھاتے گزری۔
اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ میراجی نے اپنی ظاہری شخصیت پر ملمع چڑھایا ہوا تھا۔ صرف ان کے بہت قریبی گنے چنے دوست ہی ان تہوں کو کاٹ کر ان کی شخصیت تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ یہی ملمع ان کی نظموں میں بھی ملتا ہے، جو بظاہر بے ربط، منتشر، اور پراگندہ نظر آتی ہیں، لیکن اگر کوئی تہوں کو چیر کو اندر جھانکے تو اسے اصل نظم اپنا منھ دکھائے گی۔ ان کی نظمیں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسا تاثر دیتی ہیں جیسے ان میں ربط کی کمی ہے، لیکن وہ اصل میں زیریں سطح پر بے حد چست اور گٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔
جیسے میراجی اپنی ہیئت کذائی کی وجہ سے ہر کس و ناکس کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے تھے، ویسے ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نظم بھی توجہ، محبت، اور احتیاط کے بغیر کسی کو اپنا دامن پکڑنے نہیں دیتی۔اپنی موت کے 65 سال بعد بھی میرا جی کی شاعری کو اس نقاد کی تلاش ہے جو آہنی گولوں، فوجی کوٹوں، جٹادھاری زلفوں اور رنگ برنگی مالاؤں کو ہٹا کر اصل میراجی کو سامنے لا سکے۔
............................................
     مطبوعہ بی بی سی کی ویب سائٹ ۔۲۵؍دسمبر ۲۰۱۲ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۔۲۷ دسمبر ۲۰۱۲ء
 روزنامہ نادیہ ٹائمز دہلی۔۲۸دسمبر ۲۰۱۲ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا جواب ڈنمارک سے شائع ہونے والی نہایت معیاری اور دیدہ زیب ویب سائٹ اردو ہم عصر کے اس لنک پر بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=944 
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: 

Smooth sailing for Urdu literature in 2012

 By Rauf Parekh

Karachi Arts Council`s Urdu Conference also devoted sessions to Manto and Miraji. Jadeed Adab, a literary journal edited by Hyder Qureshi and published from Germany, brought out a bulky special issue on Miraji.A very special feature of this issue was a section comprising the translations of Miraji`s poems into English, German, Russian, Dutch, Italian, Arabic, Turkish and Persian and that too in original scripts.


Smooth sailing for Urdu literature in 2012 By Rauf Parekh
Daily DAWN 14.01.2013
http://epaper.dawn.com/~epaper/DetailImage.php?StoryImage=14_01_2013_1
...................................................................

MEERA JI KI GHAZAL
NAGRI NAGRI PHIRA MUSAFIR GHAR KA RASTA BHOOL GIA
SUNG BY : GHULAM ALI


:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::


 

Montag, 10. Dezember 2012

کراچی کی اردو کانفرنس میں میرا جی سیشن


کراچی کی اردو کانفرنس میں
  میرا جی  سیشن
کراچی میں حال ہی میں ایک اردو کانفرنس ہوئی ہے۔اس میں میرا جی کے حوالے سے ایک سیشن رکھا گیا تھا۔اس کی جو خبر اور رپورٹ شائع ہوئی ہے،یہاں پیش کر رہا ہوں۔ایک روزنامہ جنگ کی شائع کردہ خبر ہے۔ جبکہ دوسری بی بی سی کی رپورٹ ہے ...مختلف اخبارات میں بعض کالم نگاروں نے اس سیشن کا جو ذکر کیا ہے،اسے بھی یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔ 
حیدر قریشی
 :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
Daily Jang ki Khabar
میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب
دیکھ رہے تھے، شمیم حنفی
 
کراچی (رپورٹ اختر علی)۔

بھارت سے تشریف لائے ہوئے ممتاز ادیب، دانشور پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا ہے میرا جی اپنے دور میں نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ ن م راشد اور فیض احمد فیض سے بھی پوری طرح آگا ہ تھے۔ انہیں مشرق اور مغرب میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ میرا جی کو یاد کرنا سب سے سنجیدہ مرحلہ ہے اور وہ میرے نزدیک سب سے سنجیدہ شاعر تھے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز اپنے مقالہ ’’ میرا جی۔ مشرق اور مغرب کا نقاد‘‘ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیض اور میرا جی کی شاعری اس دورکے سماجی،معاشرتی اور روحانی زندگی کے ہر رخ کو دکھاتی ہے۔ ان تینوں میں سے کسی کو بھی ہٹا کرنہیں دیکھا جا سکتا ،ان میں سے ہر ایک نے زندگی اور وقت کے بھید کو اپنے اپنے انداز میں دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ میرا جی نے سر پرمنڈلاتی ہوئی موت کو اطمینان سے قبول کر لیا تھا۔ ن م راشد کے نزدیک۔ میرا جی ان کے معاصرین میں سب سے بڑا تخلیقی دماغ رکھتے تھے۔ میرا جی ایک جیتا جاگتا افسانہ بن گئے تھے، وہ جانتے تھے کہ زندگی چاہے زندگی نہ بنے لیکن افسانہ ضرور بن جائے گی۔ کئی معلومات میں میرا جی کی شاعری کو ٹیگور کے برابر قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا فکری طور پر میرا جی کی نثر بھی سب سے مختلف تھی، میرا جی معلوم سے زیادہ نا معلوم کے سفر پر نکلنا پسند کرتے تھے۔ معروف ادیب اور صحافی وسعت اللہ خان نے اپنے موضوع ’’. میرا جی آج‘‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کا کلام آج بھی کل کی طرح بے حد مقبول ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے موضوع ’’ میرا جی کے تراجم‘‘کے سلسلے میں کہا کہ ہماری تنقید اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ میرا جی کے جہان کی مکمل طور پر سیر کر سکے، میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق کی مزاج سازی کی لیکن حلقۂ اربابِ ذوق نے ان کے خدمات کا بھر پور اعتراف نہیں کیا۔ میرا جی نے جس طرح نئی شاعری کی ابتدا کی اسی طرح نثر اور ترجمہ نگاری
میں ایک آواں گارد کا کردار ادا کیا۔میرا جی نے اپنے تراجم سے اپنے عہد کے ادبی کینن کو تبدیل کیا،جب چند انگریز رومانونی شعرا کے ترجمے کیے جارہے تھے،میرا جی نے فرانسیسی،جرمن،اطالوی،چینی،جاپانی،بنگالی،سنسکرت ،آئرش،امریکی،ایرانی،روسی زبانوں کے شعرا کے ترجمے کیے۔

ممتاز شاعرہ ڈاکٹر پرو فیسر شاہدہ حسن نے اپنے موضوع ’’. میرا جی کی گیت نگاری‘‘ میں کہا کہ ان کا شعری سفر در اصل اپنے اندر چھپے ہوئے آدمی کی تلاش اور دریافت ہے۔ انہوں نے شہر ادب میں سب سے انوکھی دکان کھولی تھی۔ میرا جی نے اپنی زندگی کے چراغ کی بتی کو دونوں سروں سے جلا رکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ شخصیت کی یہ برہمی اور بکھراؤ در اصل اس دور کا احتجاج تھا ، گیت کی ریت سب سے پہلے آواز بنی، آواز سروں میں ڈھلی، بول راگ میں ڈھلی اور یہ راگ گیت بن گئے۔ ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنے موضوع ’’ میرا جی کی جمالیات‘‘ میں اظہارِ خیال کیا کہ فرانسیسی مصنف ژولیان نے اردو میں کتاب لکھی۔ ژولیان نے منٹو کے مضمون ’’ 3 گولے کا حوالہ دیا۔ منٹو کی بات’’ اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لئے اور پیچیدہ ہو گئی‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا جی کی شاعری بہت ذہین اور اعلیٰ ذوق کے افراد ہی سمجھ سکتے ہیں لیکن ان کے درمیان ان کی شخصیت اور ’’ تین گولے آتے جاتے ہیں ‘‘۔ منٹو کہتے ہیں، حسن، عشق اور موت کے درمیان میرا جی کا رخ نوکیل نہیں تھا بلکہ زندگی اور موت کا لباس تھا اور دونوں سروں کو تھامے ہوئے تھا۔ منٹو کہتے ہیں میرا جی کی شاعری میں کہیں مایوسی اور سو قیت دکھا ئی نہیں دیتی، اداسی اور گہری اداسی ضرور نظر آتی ہے اور اس میں بھی گہرا جمال ہے۔ آخر میں صدر محفل ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مختصر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جی کے بارے میں بہت سارا جاننا چاہتے ہیں تو ’’ اختر الامان
کی یاداشتیں‘‘ ضرور پڑھ لیں جو اس کے آخری وقتوں کے ساتھی تھے۔ نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے سر انجام دئے۔
روزنامہ جنگ انٹرنیٹ ایڈیشن۔تازہ ترین۔۸؍دسمبر۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
BBC urdu ki website ki Report
آخری وقت اشاعت:  ہفتہ 8 دسمبر 2012 ,‭ 13:04 GMT 18:04 PST

اس اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کی اور ان کے علاوہ، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، ناصر عباس نیّر، شاہدہ حسن اور وسعت اللہ خان نے میرا جی پر بات کی۔
صدر الصدود ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جی کے بارے میں بہت زیادہ جاننا چاہتے ہو تو ’اخترالایمان کی یاد داشتیں‘ ضرور پڑھ لیں جو ان کے آخری وقتوں کے ساتھی تھے۔ اور ان کا ذکر میرا سین کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
ان سے پہلے شمیم حنفی نے کہا کہ میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے اور ن م راشد اور فیض احمد فیض اس بات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہیں مشرق اور مغرب کو جس گہرائی اور وسعت سے دیکھا وہ کسی اور میں دکھائی نہیں دیتی۔ میرا جی کو یاد کرنا سب سے سنجیدہ معاملہ ہے اور میرے نزدیک وہ سب سے زیادہ سنجیدہ شاعر تھے۔ انھوں نے کہا کہ میر اجی نے سر پر منڈلاتی ہوئی موت کو اطمینان سے قبول کر لیا تھا۔ن م راشد کے نزدیک میرا جی ان کے معا صرین میں سب سے بڑا تخلیقی دماغ رکھتے تھے۔ میرا جی ایک جیتا جاگتا افسانہ بن گئے تھے۔
ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ’میرا جی کی جمالیات‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی نژاد جولیان نے میرا جی پر اردو میں جو کتاب لکھی ہے اس میں وہ میرا جی کو بالکل بھی نہیں سمجھ سکے۔ معاملہ یہ ہے کہ میرا جی شخصیت پر زیادہ بات ہوتی ہے اور شاعری پر کم۔ میرا جی کی شاعری سمجھنے کے لیے بہت ذہین اور اعلٰی ذوق کی ضرورت ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے میں ان کے تین گولے آڑے آ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں میرا جی کی شاعری میں کہیں مایوسی اورسوقیت دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں اداسی اور گہری اداسی ضرور نظر آئی ہے اور اس میں بھی گہرا جمال ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے موضوع ’میرا جی کے تراجم‘ میں کہا کہ ہماری تنقید اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ میرا جی کی شاعری کے جہان کی مکمل طور پر سیر کر سکے۔ میرا جی نے حلقۂ ارباب ذوق کی مزاج سازی کی لیکن وہی حلقۂ ارباب اب ان سے آشنا نہیں اور نہ ہی ان کی خدمات کا وہ اعتراف کرتا ہے جس کا حق بنتا ہے۔ انھوں جیسے نظمِ آزاد کی ابتدا کی اسی طرح نثر میں بھی بنیادی آدمی ہیں۔ مشرق و مغرب کے نغمے کے مضامین انھوں نے جس عمر میں لکھے اس پر حیرت ہوتی ہے۔ پھر ان کے تراجم جو متن کو ایک نئی زبان فراہم کرتے ہیں۔
ممتاز شاعرہ شاہدہ حسن نے ’میرا جی کی گیت نگاری‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کی شاعری دراصل میں اپنے اندر چھپے ہوئے آدمی کی تلاش اور دریافت ہے۔ انہوں نے شعرِ ادب میں سب سے انوکھی دکان کھولی تھی۔ میرا جی نے اپنی زندگی کے چراغ کی بتی کو دونوں سروں سے جلا رکھا تھا۔ شخصیت کی یہ برہمی اور بکھراؤ دراصل اس دور کا احتجاج تھا۔گیت کی ریت سب سے پہلے آواز بنی آواز سروں میں ڈھلی بول راگ میں ڈھلی اور یہ راگ گیت بن گئے۔
معروف ادیب اور صحافی وسعت اللہ خان نے ’میرا جی آج‘ کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کا کلام آج بھی کل کی طرح بے حد اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا اگر یہ کہا جائے کہ میراجی ایک ذہنی مریض تھا، نرگسیت کا مارا ہوا تھا، بہروپیا تھا، جنسی کجروی کا شکار تھا، سستی توجہ حاصل کرنے کے لیے، مرکزِ نگاہ بننے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا تو، بارہ مہینے گرم کوٹ پہنے، کانوں میں بالیں ڈالے، ساھووں سی مالائیں پہنے، نہانے دھونے سے لاپروا، میلے ہاتھوں میں تین چمکدار گولے دبائے کہیں بھی پڑا رہ سکتا توُ ممبئی کے ایک گمنام اسپتال میں حقیقت سے زیادہ مرنے کی حقیقی اداکاری کر سکتا تھا۔ یہ سب باتیں صحیح ہیں لیکن وہ میرا جی تھا، وہ میرا جی جس تک پہنچنے کے ان سب سے گذرنا پڑتا ہے اور وہی گذرتے ہیں جو ان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ یا جن میں اس کی صلاحیت ہوتی ہے۔
اس اجلاس کی نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے انجام دیے۔
..................................................

 چشمِ تماشا : امجد اسلام امجد
کراچی آرٹس کونسل کی ادبی کانفرنس

شاید بہت کم قارئین کے علم میں یہ بات ہو کہ ثناء اللہ ڈار المعروف میرا جی نے صرف ساڑھے سینتیس برس کی عمر پائی تھی اور یہ کہ2 3 برس کی عمر تک وہ شاعری‘ تراجم اور تنقید کے اصناف میں اس قدر اعلیٰ معیاری اور غیر روایتی ادب تخلیق کر چکے تھے کہ جس کی مثال اردو بھی کیا دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں میں بھی کم کم ہی مل پائے گی۔ میں ان کی ایک تنقیدی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ کی نثر اور تنقیدی بصیرت کا اپنی طالب علمی کے دنوں سے قائل اور گھائل ہوں مگر ان سے متعلق خصوصی نشست میں یہ جان کر میری گرویدگی میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ مضامین انھوں نے اپنی محدود تعلیم کے باوجود اس عمر میں لکھے تھے جب ہمارے بیشتر نقاد ان ’’نغمہ گروں‘‘ کے کام تو کیا نام تک سے واقف اور آشنا نہیں ہوتے۔

یوں تو اس نشست میں صدر محفل کشور ناہید کے علاوہ ڈاکٹر شمیم حنفی، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، شاہدہ حسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور وسعت اللہ خان سب ہی نے (کمپیئر علی حیدر ملک سمیت) میرا جی کے بارے میں بہت اچھی گہری، نئی، خیال انگیز اور فکر افروز باتیں کیں لیکن مجھے ذاتی طور پر وسعت اللہ خان کا مقالہ سب سے زیادہ پسند آیا کہ انھوں نے بڑے لطیف اور نیم طنزیہ پیرائے میں میرا جی کی شخصیت‘ کام اور ان کے دور کی ادبی فضا کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ حقیقت افسانہ اور ڈراما کچھ دیر کے لیے یکجان سے ہو گئے۔
...............................
کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس۔۹؍دسمبر ۲۰۱۲ء 
سے متعلقہ اقتباس

.............................................
میرا جی اورمنٹو  

 کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس
بدھ 12 دسمبر 2012
سے متعلقہ اقتباس

منٹو اور میرا جی کے حوالے سے منائی جانے والی عالمی اردو کانفرنس میں بات تو دونوں پر ہوئی، لیکن داد و تحسین جتنی منٹو کو ملی اتنی بے چارے میرا جی کے حصے میں نہ آئی۔ وہ تو بھلا ہو محترم انتظار حسین کا کہ انھوں نے اپنے کالم کے ذریعے یاد دلایا کہ منٹو کو تو یاد کرتے ہو لیکن میرا جی کو کیوں بھول جاتے ہو کہ اس کا سال بھی 2012 ہی ہے۔ تب کراچی آرٹس کونسل نے فوراً ہی میرا جی کو یاد کرنے کا بھی اہتمام کرلیا۔ ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو جو میرا جی کے حصے میں آئی وہ یہ کہ وسعت اللہ خان نے بتایا کہ انھوں نے میرا جی کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات چاہیں تو جواب آیا، اداکارہ میرا کے بارے میں اور ہدایت کارہ میرا نائر کے متعلق۔
پھر انھوں نے میرا جی کو ان کے اصلی نام سے ڈھونڈا یعنی ثناء اللہ ڈار، تو تفصیلات موصول ہوئیں پنجاب کے وزیر قانون رانا  ثناء اللہ کی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ میرا جی کو جی بھر کے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اس پر مضامین کے ذریعے بڑے نام نہاد لوگوں نے تبرّے بازی بھی کی اور خود کو غالبؔ سے بڑا شاعر بھی تسلیم کرلیا۔ ایک المیہ ہمارے ادب کا یہ بھی ہے کہ ادیب، شاعر یا کسی بھی تخلیق کار اور فنکار کی زندگی اور اس کے فن کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ عام طور پر زندگی فن پر حاوی ہوجاتی ہے اور تخلیق کار کی بہت ساری صفات کو اس کی بے ترتیب زندگی کا کفن پہنا کر دفنا دیا جاتا ہے۔ میرا جی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس موقع پر کشور ناہید صاحبہ نے ایک بڑی اچھی بات کہی کہ میرا جی پر مضامین پڑھنے والوں نے اس میرا سین کا بالکل ذکر نہ کیا جس کی وجہ سے ثناء اللہ ڈار میرا جی بن گیا۔ ساتھ ہی انھوں نے اختر الایمان کی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب ’’اس آباد خرابے میں‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی جس میں میرا جی کی زندگی کے آخری دنوں کا احوال موجود ہے۔ کیونکہ وہی ایک شخص تھے جو ان کے ساتھ رہے اور انھوں نے ہی میرا جی کو ایک خیراتی اسپتال میں داخل کرا دیا تھا۔ تیسری بات کشور ناہید نے گیتا پٹیل کے بارے میں کی اور کہا کہ میرا جی کو سمجھنے کے لیے گیتا پٹیل کی کتاب پڑھنا بہت ضروری ہے۔
..........................................................



Dienstag, 27. November 2012

ظفر اقبال کے جواب میں :عابد خورشید

ظفر اقبال کے جواب میں :عابد خورشید

یہ مکتوب نما مضمون عابد خورشیدنے بھیجا ہے۔ظفر اقبال کے دو نازیبا کالموں کے جواب میں اس مضمون میں بعض اہم ادبی معاملات پر علمی انداز میں بات کی گئی ہے۔چونکہ ان ساری باتوں کا ذکر میرا جی کے حوالے سے ہی آیا ہے،اس لیے اس خط کو جناب عابد خورشیدکے شکریہ کے ساتھ یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔اس سلسلہ میں کوئی مزید پیش رفت ہوئی تو وہ ریکارڈ بھی یہاں شامل کر لیا جائے گا۔
............................................................

عابد خورشیدؔ
................
محترمی و مکرمی
انچارج اَدبی صفحہ روزنامہ ’’دُنیا‘‘ لاہور
السلام علیکم !
دُنیائے صحافت کے فلک پر نمودار ہونے والے ایک روشن ستارے روزنامہ ’’دُنیا‘‘ میں ظفر اقبال صاحب نے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔موصوف اپنے کالم کے ذریعے متعصبانہ خیالات کا کھل کر اظہار فرماتے ہیں‘ جب کہ کالم نگاری کا بنیادی مقصد سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی ‘ مذہبی یا اخلاقی موضوعات پر اظہار رائے کرنا ہوتا ہے‘ تاکہ ایک متوازن نقطۂ نظر قارئین کے سامنے پیش کیا جا سکے‘جب کہ ظفر اقبال صاحب اپنے کالموں میں اَدبی شخصیات پر حملہ زن ہونے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ مثلاً اُنھوں نے ۱۷ ستمبر ۲۰۱۲ء کے کالم بعنوان ’’میراجی ایک مٹتی ہوئی تصویر‘‘ میں نظم کے صفِ اول کے شاعر کے متعلق توہین آمیز کلمات لکھے ہیں۔فرماتے ہیں:
’’اُس کی غزلیں ہرگز متاثر نہیں کرتیں‘ گیت بھی بس یوں سمجھے گزارہ ہی ہیں‘‘
’’چنانچہ میراجی کا بنیادی حوالہ اگر شاعری ہے تو نہ وہ متاثر کرتا ہے‘ نہ مائل‘‘
لگے ہاتھوں وہ دیگر مشاہیر اَدب کے بارے میں یوں فتوے صادر فرماتے ہیں :
’’یگانہ چنگیزی ایک معمولی درجے کا شاعر تھا‘‘
’’ڈاکٹر وزیرآغا اور احمد ندیم قاسمی کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اُنھوں نے شاعری محض اوڑھی ہوئی تھی‘‘
’’مجید امجد اور ن‘ م‘ راشد کی نظموں میں وہ گھلاوٹ ‘ اثرپذیری اور ازدل خیز دبردل ریز والی کیفیت نہیں ہے‘‘
اِسی کالم کی دوسری قسط میں جناب ظفراقبال کا انداز ملاحظہ فرمائیں:
’’میراجی تو محض میٹرک فیل آدمی تھا‘‘
’’]تنقید[ ایک غیر ضروری صنف ہے اور جن کے بارے میں بات عام ہے کہ ہر بگڑا ادیب نقاد بن جاتا ہے‘‘
’’اَدب کے ساتھ معمولی ربط ضبط رکھنے والا کوئی بھی شخص نقاد ہو سکتا ہے‘‘
یہ صحافت کی کون سی قسم ہے‘ جس میں محترم کالم نگار جو جی میں آئے لکھ دیں اور اُسے شائع بھی کر دیا جائے۔ساتھ ہی اُردو اَدب کی ایک مقتدر اَدبی شخصیت ڈاکٹر وزیرآغا کا محاسبہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔اس محاسبے کا محرک میراجی پر تحریر کردہ ڈاکٹر وزیرآغا کے وہ پانچ مضامین ہیں جو سہ ماہی ’’جدید اَدب‘‘ جرمنی(مدیر : حیدر قریشی) کے ’’میراجی نمبر‘‘ میں بڑے التزام سے شائع ہوئے ہیں۔ ظفر اقبال صاحب نے ان پانچوں مضامین کو تختۂ مشق بنا کر دراصل اپنے اندر کی وہ بھڑاس نکالی ہے جو ڈاکٹر وزیرآغا کے فقید المثال علمی و اَدبی کام کو دیکھ کر جلاپے کی صورت میں اُنھیں ہمہ وقت بے چین کیے رکھتی ہے۔ مذکورہ کالم میں ایک جگہ کچھ یوں فرماتے ہیں:
’’میراجی کی شاعری پر وزیرآغا کے پانچ مضامین شامل ہیں۔شاعری ڈل اور بے جان ہو تو تنقید بھی شگفتہ اور قابل مطالعہ نہیں ہو سکتی‘‘
کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ’’شگفتہ تنقید‘‘ کی وضاحت بھی فرمادیتے! ممکن ہے ‘ وہ اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکے ہوں کہ اُن کی کالم نگاری ’’شگفتہ تنقید‘‘ کے معیار قائم کرنے کے لیے کافی ہے۔
خیر !یہ تو جملہ معترضہ تھا ‘ ظفر اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ آغاصاحب نے شاعری کو اپنے اوپر محض اوڑھ رکھا تھا اور یہی صورت حال احمد ندیم قاسمی کی بھی تھی۔ ہم یہاں یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ اگر اِن دونوں قابلِ احترام شخصیات نے شاعری کو خود پر اُوڑھ رکھا تھا تو کیا ظفراقبال صاحب نے شاعری کو نیچے زیب تن کیا ہوا ہے !مقام حیرت ہے کہ اسّی سال کی عمر کے پیٹے میں داخل ہو جانے کے باوجود ظفر اقبال صاحب کی زبان اور قلم کی تلخی اور تندی میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اُن کی تلخ نوائی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
ماہنامہ ’’الحمرا‘‘ لاہور ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں غلام نبی اعوان نے ظفر اقبال صاحب کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیے:
’’میرے محترم ظفر اقبال صاحب ان پھاوڑہ بازوں کی دوسری پیڑی سے ہیں۔ میں نے شروع میں ظفر اقبال صاحب کو پڑھنے کی کوشش کی لیکن اُن کی لفظی گتکے بازیوں سے میرے ذوق مطالعہ کو ایسا جھٹکا لگا کہ میں نے ان کی غزل پڑھنا چھوڑ دی ۔غزل پڑھتے ہوئے یوں لگا کہ میں کہیں لکڑیوں کے ٹال میں گھس آیا۔ جمال فکر و خیال سے کوری لفظوں کی ہیراپھیری ..... میں ایک عامی شخص ہوں اور ظفر اقبال کی اس قبیح تجربہ کاری پر اپنی علمی کم مائیگی کی وجہ سے دم سادھے ہوں۔ (الحمرا‘ لاہور‘ ص۱۳۷۔۱۳۶)
دوسری طرف ’’الحمرا‘‘ اگست ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شامل ظفر اقبال کی ’’حمد‘‘ کے بارے میں پروفیسر جمیل آذر صاحب یوں رقم طراز ہیں:
’’اِس شمارے کا سب سے تکلیف دہ کلام جناب ظفر اقبال کی تحریر کردہ ’’حمد‘‘ ہے۔ یہ حمدیہ کلام کے زمرے میں تو قطعاً نہیں۔ان کے کلام میں گستاخی اور بے اَدبی کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ اور وہ حدِ اعتدال سے گزر گئے ہیں..... ظفر اقبال صاحب سے گزارش ہے کہ وہ توبہ استغفار کریں کیونکہ میری طرح وہ بھی عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں رب العزت کی دل سے حمد و ثنا کی ضرورت ہے۔‘ ‘ (الحمرا‘ لاہور‘ ص۱۳۵)
اسی طرح‘ ’’الحمرا‘ لاہور ‘ اکتوبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں سید معراج جامی لکھتے ہیں:
’’ظفر اقبال صاحب کی حمد پڑھی۔اب ظفر اقبال صاحب اس مقام پر ہیں جہاں وہ ہر طرح کی تنقید و تجزیے سے گزر چکے ہیں۔ جہاں ساری دوا اور دعا ناکام ہو جاتی ہے ‘ بس تذکرہ ہی تذکرہ رہ جاتا ہے۔ (الحمرا‘ لاہور‘ ص ۱۳۹)
حمدیہ کلام میں تجربہ کاری کے نام پر ظفر اقبال صاحب کے متعارف کردہ گستاخانہ طرزِ بیان سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمر کے اس موڑ پر پہنچ کر وہ کس قسم کے ذہنی خلفشار سے دوچار ہیں۔ظفر اقبال صاحب کے حمدیہ اشعار کے چند نمونے دیکھیے

بلندی پہ ہو جائے گا فائز اور
کہیں میرے اندر اُترنے سے تُو
**
ابھی تیرا ہونا نہیں کھل سکا
کہ چلنے سے ہے یا ٹھہرنے سے تُو
**
ابھی مل نہ پائے گا اقرار سے
تو مل جائے شاید مُکرنے سے تُو
ہماری ظفر اقبال صاحب سے استدعا ہے کہ اپنے رہوارِ قلم کی باگیں ہاتھوں میں تھامنے کی کوشش فرمائیں۔ بصورتِ دیگر بقول شاعر
’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘
کی صورتِ حال پیدا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
 ...................................................................... 

::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
میرا جی کے صرف چار اشعار

 جن کی تقلید نے ظفر اقبال کو شاعر بنا دیا۔لیکن ظفر اقبال نے جہاں سے فیض پایا،اس کا نیازمندی کے ساتھ اقرار کرنے کی بجائے اسی کے خلاف لکھنا ضروری سمجھا۔
.......................................................

........................................................
ڈاکٹر مظفر حنفی کے مضمون ’’میرا جی:شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات‘‘ سے اقتباس،

بحوالہ جدید ادب جرمنی میرا جی نمبر ۔
....................... 
’’میرا جی کے متفرق اشعار پڑھتے ہوئے مجھے بے ساختہ

   ظفر اقبال یاد آگئے۔تین چار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
 

ملائیں چار میں گر دو تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے دو تو باقی چار رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا پوچھتے ہو ہم سے یہ ہے حالتِ جگر
پی اس قدر کہ کٹ ہی گیا آلتِ جگر
۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے کا رنگ زرد، مئے ناب کا بھی زرد
یہ رنگ ہیں کہ رنگ ہے پیشاب کا بھی زرد
۔۔۔۔۔۔۔۔
دن میں وظیفہ اس کا کئی بار کیجیے
اپنے جگر کے فعل کو بیدار کیجیے

 
یعنی زبان کی توڑ پھوڑ اور مضامین کی اکھاڑ پچھاڑ کا جو کام ظفر اقبال آج کر رہے ہیں،اُس کا آغاز میرا جی نے ۷۰۔۸۰ برس پہلے کر دیا تھا۔دیکھیں وہ میرا جی کے اس فیضان کا اعتراف کب کرتے ہیں۔
‘‘
.........................................................................................
میرا جی کے چار اشعار کے فیض نے ظفر اقبال جیسا شاعر بنا دیا

لیکن ظفر اقبال اپنی اصل اور بنیاد کا اقرار کرنے سے گریزاں
پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

Dienstag, 6. November 2012

میرا جی صدی 1912 - 2012




REVIWES ON JADEED ADAB ISSUE 19
MEERA JI NUMBER


میرا جی صدی
  1912-2012
میرا جی صدی کے طور پرجدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر کی اشاعت کے بعد سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے میرا جی کی طرف توجہ کی جانے لگی ہے۔ہر چند مختلف ادیبوں کی ذاتی ترجیحات کسی نہ کسی رنگ میں ادبی معاملات پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں تاہم خوشی کی بات ہے ،لوگ باگ اپنے نجی نوعیت کے تحفظات اور تعصبات کے باوجود میرا جی کے بارے میں لکھنے کی طرف مائل ہیں۔جدید ادب کے میرا جی نمبر کے بعد اس پر تبصروں اور ردِ عمل کا سلسلہ جاری ہے،جسے تدریجاََ اسی جگہ پیش کیا جاتا رہے گا۔

  DAILY DAWN KARACHI
میرا جی کے بارے میں
پانچ ادیبوں اور نقادوں کے مضامین
ڈیلی ڈان کی ایک اشاعت میں میرا جی کے بارے میں پانچ مضامین ایک ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔یہ میرا جی کی ادبی خدمات کا اعتراف ہے۔
تاہم جدید ادب کے میراجی نمبر کے حوالے سے ان مضامین کا کوئی تعلق نہیں۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جولائی ۲۰۱۲ء میں جب جدید ادب کا میرا جی نمبر شائع ہوا تو ڈان کے کسی ادبی بندے کو بھی احساس ہوا کہ میرا جی صدی کے سال کے جاتے جاتے نومبر میں سہی،ان کا اتنا سا اعتراف تو کر لیا جانا چاہیے۔چونکہ میرا جی کی نسبت سے یہ مضامین شائع کئے گئے ہیں ،اس لیے انہیں بھی یہاں ڈان کے مذکورہ بندے کے شکریہ کے ساتھ دیاجا رہا ہے۔
 
.................................................   
جدیدادب کا میرا جی نمبر: ایک تاثر.......مدثر بلال.....لاہور
http://nla.gov.pk/november2012.php?p=27
.................................................  
جدید ادب (جرمنی) کا ’’میرا جی نمبر‘‘ 
ایک منفرد ادبی دستاویز.........عامر سہیل ...ایبٹ آباد
.................................................   
میراجی نمبر ۱۰۰؍ویں سال گرہ ۔ ۔۔ ایک جائزہ
(جدید ادب جرمنی شمارہ : ۱۹ www.jadeedadab.com)
ڈاکٹر محمد شفیع چوبدار.....شولاپور، انڈیا

http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=906 
.................................................  
 میرا جی… جنازہ کیسے اٹھا، سال کیسے منایا گیا
   انتظار حسین
.............................. 
  انتظار حسین کے کالم کے حوالے سے دو وضاحتیں
 حیدر قریشی
........................................
 .........................................

یہاں انگریزی کے معروف اخبار ڈیلی ڈان کراچی کا لنک پیش کیا جا رہا ہے۔ڈیلی ڈان کے 4 نومبر2012ء کے شمارہ میں پانچ ادیبوں اور نقادوں کے مضامین ایک ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔
DAILY DAWN KARACHI
4.11.2012
 ڈیلی ڈان کی ایک اشاعت میں میرا جی کے بارے میں پانچ مضامین ایک ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔یہ میرا جی کی ادبی خدمات کا اعتراف ہے۔
تاہم جدید ادب کے میراجی نمبر کے حوالے سے ان مضامین کا کوئی تعلق نہیں۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جولائی ۲۰۱۲ء میں جب جدید ادب کا میرا جی نمبر شائع ہوا تو ڈان کے کسی ادبی بندے کو بھی احساس ہوا کہ میرا جی صدی کے سال کے جاتے جاتے نومبر میں سہی،ان کا اتنا سا اعتراف تو کر لیا جانا چاہیے۔چونکہ میرا جی کی نسبت سے یہ مضامین شائع کئے گئے ہیں ،اس لیے انہیں بھی یہاں ڈان کے مذکورہ بندے کے شکریہ کے ساتھ دیاجا رہا ہے۔
.................................................................................................................................
 
جدید ادب کا میرا جی نمبر: ایک تاثر

مدثر بلال.....لاہور

 میرا جی بیسیویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ میرا جی کا شمار جدید اردو نظم کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ راشد فیض اور میرا جی معاصر شاعر ہیں اور ان کے سن ولادت میں معمولی سا فرق ہے لیکن میرا جی صرف ساڑھے سینتیس برس کی عمر میں اس مسافر خانے سے کوچ کر گئے لیکن ان چند سالوں میں میرا جی نےاردو ادب پر ان مٹ اثرات مرتسم کیے۔
 میرا جی جدید نظم کے نمایاں ترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کے نقاد، مترجم اور نثر نگار بھی تھے۔ میرا جی کے ہاں مغربی رجحانات کے ساتھ عصری اور سماجی شعوربھی پایا جاتا ہے۔انھوں نے حلقہ ارباب ذوق کے تحت جدید اردو نظم اور تنقیدکے لیے نئی راہوں کا تعین کیا۔ 
2012
 ء کو میرا جی کی صدسالہ جشن ولادت کی مناسبت سے میرا جی کے سال کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج شعبہ ار دو کے زیراہتمام مورخہ ۱۰ مئی ۲۰۱۲ء کو میرا جی کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے ایک روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے جرمنی سے جدید ادب کا میرا جی نمبر اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں نہ صرف میرا جی کی نظم و نثر پر اب تک ہونیوالے اہم کام کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے بلکہ میرا جی کی شاعری اور نثر کو معاصر عہد کے تناظر میں دیکھتے ہوئے نئے لکھنے والوں کی بھی ایسی بہت سی تحریریں شامل کی گئی ہیں جو تنقید کے جدید رجحانات کی روشنی میں میرا جی کی ادبی خدمات کو ایک نئے رنگ اور ڈھنگ سے آشکار کر رہی ہیں۔
آغاز میں میرا جی پر کی گئی حیدر قریشی کی گفتگو جدید اردو ادب سے ان کے تعلق خاطر اور میرا جی سے ذہنی و جذباتی وابستگی کی آئینہ دار ہے جس کی بدولت انہوں نے انتہائی محنت اور لگن سے اس شمارہ خاص کو ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے میرا جی صدی پر ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے۔ میرا جی شناسی کے حوالے سے اس اہم پیش رفت پر ان کا مطمح نظریہ ہے کہ جیسے جیسے میرا جی کو زیادہ پڑھا جائے گا ویسے ویسے اس عظیم شاعر کی تفہیم کے امکانات کھل کر سامنے آئیں گے۔
ابتدائی حصے میں میرا جی کے سوانحی خاکے کو ڈاکٹر جمیل جالبی جیسے اردو ادب کے بڑے محقق نے اپنے احاطہ تحریر میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جب کہ ہانی السعید نے میرا جی پر اب تک ہونیوالے تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی کام کا اجمالی جائزہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح ن۔ م۔ راشد اور اختر الایمان کے میرا جی کے بارے میں خطوط اس عظیم شاعر کے مقام و مرتبے کی صورت گری ان کے معاصر نظم گو شعراء کی نظر سے کرتے ہیں۔
شمارے کا پہلہ حصہ میرا جی کو بحوالہ وزیر آغا سمجھنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ میرا جی شناسی کے حوالے سے وزیر آغا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اور اس اعتبار سے انہیں اپنے دوسرے معاصر ناقدین پر تفوق حاصل ہے کہ انہوں نے میرا جی کی نظموں کو ایک نئے تناظر میں پرکھا ہے۔
جدید ادب کے اس شمارے میں میرا جی کو بحوالہ وزیر آغا سمجھنے کے لیے قاری کے لیے ان کے تمام مضامین کو یکجا کر دیا گیا ہے جو وزیر آغا نے مختلف ادوار میں لکھے اور میرا جی کو پڑھنے والوں کیلئے فکروفن کے نئے دریچے وا کیے۔ طارق حبیب نے میرا جی شناسی میں ڈاکٹر وزیر آغا کے حصے کی نشاندہی کی ہے۔
شمارے کے دوسرے حصے میں میرا جی کی شخصیت اور شاعری پرمضامین لکھے گئے ہیں۔ جیلانی کامران، ساقی فاروقی، مظفر حنفی، عبداللہ جاوید، مختار ظفر، احمد ہمیش اور توحید احمد جیسے ناقدین کے مضامین میرا جی کی شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات کو سامنے لاتے ہیں۔
ساقی فاروقی کے نزدیک میرا جی نے آدمی کے ان دکھتے ہوئے زخموں اور زنگ خوردہ جنسی جذبوں کی تطہیر کا فرض ادا کیا جنھیں ہمارے دوسرے شاعروں نے دانستہ نظر انداز کر رکھا تھا۔
تیسرے حصے میں میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری کے حوالے سے ناقدین کے مضامین شامل کیے گئے ہیں جنھوں نے میرا جی کی تنقیدی بصیرت کو اجاگر کیا ہے۔
جہاں سید وقار عظیم اور ڈاکٹر نذر خلیق نے میرا جی کی تنقیدی حیثیت متعین کرتے ہوئے ان کی تنقید میں مختلف پہلوؤں کی نشان دہی کی ہے وہاں معاصر تنقید کے اہم ترین نقاد ناصر عباس نیرّ کا مضمون یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس طرح میرا جی کی نظم نگاری کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اسی طرح جدید نظم کی تنقید کے ضمن میں بھی ان کی خدمات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے نزدیک میرا جی نے جدید اردو نظم کی اطلاقی تنقید کے اولین نمونے فراہم کیے۔ ان کے نزدیک میرا جی کی تنقید کا سرچشمہ مغرب ہے تاہم مغربی اثرات کے حوالے سے انھوں نے ایک نئی جہت اردو تنقید کو دی۔
نئے لکھنے والوں نے بھی میرا جی کو منفرد انداز میں سمجھا ہے اور اپنے مضامین کے ذریعے میرا جی کو معاصر تنقید کے نت نئے رجحانات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ نئے لکھنے والوں میں جہاں معید رشیدی میرا جی کی نظموں میں موجود ابہام کی مختلف صورتوں کو ایک نئے تناظر میں سامنے لایا ہے ۔ وہیں قاسم یعقوب نے میرا جی نظموں کی کرافٹ اور ان میں پائے جانیوالے ہیتی تنوعات کو نشان زد کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی نے مظفر حنفی کی طرح نہ صرف میرا جی کی غزل کو غزل میں ہونیوالے ابتدائی لسانی تجربات کا پیش خیمہ قرار دیا ہے بل کہ انہیں اردو میں ہونے والی ابتدائی لسانی تشکیلات کا محرک بھی بتایا ہے۔ اسی طرح احتشام علی نے میرا جی کی نظموں کے متن کو ان کے عہدکے سیاق کے حوالے سے پرکھا ہے اور ان کی ابہام زدہ نظموں کے متن میں موجود نیم روشنی اور کثیر المعنویت کو تنقید کے نت نئے رجحانات کی رو سے دیکھنے پر اصرار کیا ہے۔ مجموعی طور پر اس حصے میں نئے لکھنے والوں کی بھرپور شرکت اس بات کی غماز ہے کہ میرا جی آج کے عہد میں بھی اتنے ہی جدید اور نئے ہیں جتنے قریباً پون صدی قبل تھے۔
آخر میں دیا گیا میرا جی کی شاعری اور نثر کا انتخاب حیدر قریشی کے حسن انتخاب اور پختہ شعری ذوق کی دلالت کرتا ہے۔
علاوہ ازیں میرا جی کی نظموں کے مختلف زبانوں میں ہوئے تراجم میرا جی کی عالمی سطح پر ہونے والی پذیرائی کے عکاس ہیں۔ اس ضمن میں انگریزی، جرمنی، ڈچ اور اٹالین جیسی ترقی یافتہ یورپی زبانوں کے ساتھ روسی، ترکی، فارسی اور عربی جیسی عظیم مشرقی زبانوں میں ہونیوالے تراجم میرا جی کی شعری شناخت کو ایک نئے عالمی تناظر میں سامنے لاتے ہیں۔

(مطبوعہ ماہنامہ ’’اخبارِ اردو‘‘اسلام آباد۔نومبر ۲۰۱۲ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبرپر مدثر بلال لاہور کاتبصرہ ۔مطبوعہ ماہنامہ ’’اخبارِ اردو‘‘اسلام آباد۔
شمارہ نومبر ۲۰۱۲ء
  ڈائریکٹ لنک کے لیے کلک کریں۔

 ..................................................................................................


ادب نامہ ۔ادبی صفحہ مطبوعہ روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔مورخہ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء

جدید ادب (جرمنی) کا ’’میرا جی نمبر‘‘
ایک منفرد ادبی دستاویز


عامر سہیل ...ایبٹ آباد


ہمارے اُردو ادب میں اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے جو امریکہ،یورپ ، کینیڈا ،جاپان ،چین اور روس میں مستقل رہائش پذیر ہیں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق اُردو کے فروغ میں مقدور بھر کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں اسی قبیلے کی ایک فعال شخصیت کا نام حیدر قریشی ہے۔جو کئی برسوں سے جرمنی میں مقیم ہیں اور اگر اُن کی علمی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تنِ تنہا جتنا کام کیا ہمارے ہاں اتنا کام بڑے بڑے ادارے بھی نہیں کر رہے۔ بلا مبالغہ حیدر قریشی اُن خوش نصیب اُدبا میں شمار ہوتے ہیں جن پر ادب کی دیوی پوری طرح مہربان ہے اسی وجہ سے وہ ادب کی ا ہم اور متنوع تخلیقی اصناف مثلاً افسانہ،ماہیا،انشائیہ، غزل،آزاد نظم،شخصی خاکہ اورسفر نامہ نگاری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔اُن کی فکری جہات کا ایک مضبوط حوالہ تحقیق اور تنقید بھی ہے۔لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی،اس وقت انٹر نیٹ پر موجود دنیائے ادب کا خالص علمی ادبی اور تحقیقی جریدہ ’’جدید ادب‘‘ انہی کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔اس ادبی رسالے کے مندرجات اپنے معیار و وقار کے باعث تحقیقی کاموں میں بطور حوالہ جات استعمال ہو رہے ہیں۔حیدر قریشی کا تازہ ترین ادبی معرکہ یہ ہے کہ اُنہوں نے ’’جدید ادب‘‘ کا ضخیم ’’میرا جی نمبر‘‘ شائع کیا ہے،چھے سو(۶۰۰) صفحات پر مشتمل اس تاریخی نمبر میں ہر وہ چیز موجود ہے جو شائقینِ ادب پڑھنا چاہتے ہیں۔
’’جدید ادب‘‘ کا میرا جی نمبر دس حصوں میں منقسم ہے(۱) گفتگو(۲) میرا جی شناسی اور وزیر آغا(۳) میرا جی کی شخصیت اور شاعری(۴) میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری(۵) میرا جی،نئے لکھنے والوں کی نظر میں(۶) میرا جی کی شاعری کا انتخاب(۷) میراجی کی نثر کا انتخاب (۸) میرا جی کو منظوم خراجِ محبت (۹)مختلف زبانوں میں میرا جی کی نظموں کے تراجم(۱۰) انتظاریہ۔
حیدر قریشی کا کہنا ہے: ’’ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم لوگ اپنے معاشرے کے دوہرے معیار کے عین مطابق ظاہری اخلاقیات کے تحت آنے والے کسی عیب پر رُک کر رہ جاتے ہیں،اور پھر اُس تخلیق کار کا سارا ادبی کام پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ میرا جی بڑی حد تک اسی منفی رویے کا شکار ہوئے ہیں،رہی سہی کسر اُن دوستوں اور ’’کرم فرماؤں‘‘ نے پوری کردی جنہوں نے میرا جی کے فن پر توجہ دینے کی بجائے اُن کی شخصیت کو مزید افسانوی بنا دیا۔بے شک اُن کی شخصیت میں ایک انوکھی سحر انگیزی تھی،یاروں کی افسانہ طرازی نے میرا جی کے گرد ایسا ہالہ (جالا) بُن دیا کہ قاری اُن کی تخلیقات سے بالکل غافل ہو گیا۔میراجی کے دوستوں نے اس معاملے میں نادان دوستی کا اور’’ کرم فرماؤں‘‘ نے دشمنی کا
  کردار نبھایا ہے‘‘ ......جدید ادب،میرا جی نمبر،ص ۱۰
حیدر قریشی نے یہ بات کہہ کر فرضِ کفایہ ادا کیا ہے،ہمارے ہاں اکثر لکھنے والے اس منفی رویے کو مدت سے محسوس کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اظہار کرنے میں کوتاہی بھی ہوتی رہی ہے۔منٹو نے میرا جی کے ساتھ جو تین گولے باندھے تھے بعد میں آنے والے ناقدین انہی گولوں کے ساتھ کھیلتے رہے اور یہ نہ سوچا کہ میرا جی اصلاً ایک تخلیق کار ہے نہ کہ شعبدہ باز۔ میں میرا جی پر لکھی جانے والی بیشتر تنقیدی تحریروں کو خاکہ نگاری کی ذیل میں رکھتا ہوں۔ ماضی میں ہونے والی مدرّسی تنقیدکو اگر دیکھا جائے تو حیدر قریشی کے موجودہ’’ میرا جی نمبر‘‘ کی نوعیت تقلیدی نہیں بلکہ اجتہادی نظر آتی ہے۔قاری اس نمبر کے توسط سے اُس میرا جی سے ملتا ہے جس کی نظموں میں آفاقی بصیرت اور تنقید میں تفہیمی شعریات کے باریک نکتے چمک رہے ہیں۔اُردو ادب کے پرانے نقادوں نے میراجی کے فکرو فن پر جو دبیز پردے ڈالے تھے اُن کا ذکر بے سود ہے۔البتہ ہمارے جدید اور نئے نقادوں نے کم وقت میں اُس منفی تنقیدی اثر کو زائل کر دیا ہے جس نے میرا جی کواساطیری روایتوں میں زندہ دفن کر دیا تھا۔خوش کُن امر یہ ہے کہ اس ’’میرا جی نمبر‘‘ میں وہ تمام اہم نام موجود ہیں جو ہمیں میرا جی سے نزدیک کر تے ہیں، چند مقالہ نگاروں کے نام یہ ہیں:ناصر عباس نیر،ڈاکٹر نذر خلیق،ڈاکٹر رشید امجد،معید رشیدی،قاسم یعقوب،مستبشرہ ادیب،ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی، شہناز خانم عابدی،ہاجرہ بانو،سید وقار عظیم،احتشام علی،مبشر احمد میر اور
شکیل کوکب۔
’’میرا جی نمبر‘‘ کا لائقِ توجہ حصہ وہ ہے جس میں اس عظیم اُردو شاعر کی شاعری کے انگریزی،جرمن،روسی،ڈچ،اطالوی،عربی،ترکی اور فارسی تراجم پیش کیے گئے ہیں ۔مترجمین کی اس صف میں ایم اے آر حبیب،گیتا پاٹیل،ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ،ڈاکٹر لد میلا وسئیلیو یا، ناصر نظامی،ماسیموبون، ہانی السعید،ڈاکٹر خلیق طوق ار،زیاد کاؤسی نژاد،ڈاکٹر انجم ضیاء الدین تاجی،ڈاکٹر روف پاریکھ،انتظار حسین اورڈاکٹر امجد پرویز شامل ہیں۔
میرا جی کی شاعری پر شامل تراجم نے اس نمبر کی افادیت بڑھا دی ہے۔میں نے جب فارسی اور انگریزی تراجم کو اصل متن کی روشنی میں پڑھا تو خوشی ہوئی کہ مترجمین نے ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے،باقی زبانوں کے تراجم بھی یقیناًانہی صفات کے حامل ہو ں گے۔مترجمین کو اس بات کی اضافی داد ملنی چاہیے کہ اُنہوں نے جن نظموں کا انتخاب کیا وہ میرا جی کی نمایندہ نظمیں ہیں۔’’جدید ادب‘‘ بنیادی طور پر ایک بین الاقوامی ادبی جریدہ ہے لہذا اِن تراجم کی بدولت میرا جی کی  قرات کا دائرہ مزید وسیع ہو گا۔ میرا جی کی چالیس تخلیقات کا ترجمہ ایک رسالے میں آ جانا بذاتِ خود ایک بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے۔
اُردو ادب کے معدودے چند نقاد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے ادبی سفر کے مختلف مراحل میں میرا جی پر توجہ مرکوز رکھی اور اپنے سنجیدہ مطالعات میں میرا جی کی اصل اہمیت کو روشناس کرایا، اس قبیلے میں ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر رشید امجد سرِفہرست ہیں۔ حیدر قریشی چونکہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے اسی لیے’’ جدید ادب‘‘ میں اُنہوں نے ’ میرا جی شناسی اور وزیر آغا ‘ کا الگ عنوان قائم کیا اور اُن مقالات کو یکجا کردیا جو میرا جی کی راست تفہیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔اسی حصے میں طارق حبیب نے ’’ میرا جی شناسی میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ‘‘ جیسا معلومات افزا مضمون لکھا اور تمام اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی۔’’جدید ادب کا میرا جی نمبر‘‘ انٹر نیٹ کی ویب سائیٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے اس کے لیے
www.jadeedadab.com 
 تک جانا شرط ہے۔اسی سائیٹ پر ’’جدید ادب ‘‘ کے سابقہ شمارے بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ اس خاص نمبر کی کتابی صورت ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،۳۱۰۸،وکیل سٹریٹ،کوچہ پنڈت،لال کنواں،دہلی..انڈیا
سے حاصل کی جاسکتی ہے۔مزید تفصیلات اور جانکاری کے لیے haider_qureshi2000@yahoo.com 
  پر رابطہ کیجیے۔

ادب نامہ ۔ادبی صفحہ مطبوعہ روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔مورخہ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء
.......................
  مطبوعہ روزنامہ نادیہ ٹائمز دہلی۔۹؍نومبر۲۰۱۲ء
 ....................
مطبوعہ روزنامہ آج پشاور۔۳۰؍نومبر۲۰۱۲ء
............................................
براہ راست لنک روزنامہ آج پشاور

http://dailyaaj.com.pk/epaper/index.php?city=peshawar&page=29&date=2012-11-30
.............................................................
 
میراجی نمبر ۱۰۰؍ویں سال گرہ ۔ ۔۔ ایک جائزہ

(جدید ادب جرمنی شمارہ : ۱۹ www.jadeedadab.com)
ڈاکٹر محمد شفیع چوبدار.....شولاپور، انڈیا


http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=906
..........................................................
 
حیدر قریشی عصری اردو ادب میں نام اور مقام رکھتے ہیں۔ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان کی فعال اور متحرک ادبی شخصیت سے میں اس لئے بھی متاثر ہوں کہ انہوں نے کئی ادیبوں اور شاعروں کی ادبی سوچ کی رہنمائی بھی کی ہے اور پذیرائی بھی۔ اس کے علاوہ ان کی تخلیقی تحقیقی اور تنقیدی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ اردو ادب کو جدید ٹکنالوجی سے جوڑنے میں انہوں نے پہل کی ہے اور عالمی مسائل کو ادب میں جگہ دینے کی کوششوں میں بھی لگے رہتے ہیں۔ان کی سوچ اردو ادب کو تروتازہ ، تناور اوروقت کاہم قدم بنانے کی ہے۔ اس لئے انہوں نے ادبی صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ ’’جدید ادب ‘‘ ان کی فکری دنیا کا ترجما ن ہے۔ سرور اکادمی جرمنی کے زیر اہتمام بیک وقت کتابی صورت میں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے والا اردو کا یہ ادبی جریدہ برس ہا برس سے شائع ہو رہا ہے۔ ہر شمارہ خاص نمبر سے کم نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’جدید ادب ‘‘ میں کچھ ایسا بھی مواد ہوتا ہے جو کسی اور رسالے یا جریدے میں نہیں ہوتا۔ وقتاً فوقتاً اس کے خصوصی شمارے بھی شائع ہوتے ہیں۔ اس بار میراجی کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر حیدر قریشی نے ایک ضخیم نمبر شائع کر کے اپنے اعلیٰ ادبی ذوق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کا یہ قدم نام نہاد اردو کے ہمدردوں اور اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ یہ میراجی جیسی ادب ساز ، ادب نواز شخصیت کو بھولے ہوئے ہیں۔ شعری ادب میں نیا موڑلانے والے شاعر کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ حیدرقریشی قابل صد تحسین ہیں کہ انہوں نے ’’جدید ادب‘‘ کا میرا جی نمبر شائع کر کے میراجی کی اہمیت کو نہ صرف یاد دلایا بلکہ میراجی کا آموختہ کروا کے ازسرِ نو ان کے شعری سرمائے پرغور و فکر کر نے کی دعوت دی ہے۔ 
جدید ادب ‘‘کا یہ نمبر ۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر صفحہ میراجی کی شعر ی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔ ان کی افسانوی شخصیت کے رموز سے آشنا کراتا ہے۔ یہ سارا مواد حیدرقریشی کی تحقیق اور تلاش کا نتیجہ ہے۔ نمبر کے شروعات میں بعنوان ’’گفتگو‘‘ حیدرقریشی کے کچھ ابتدائی الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
’’میراجی ۲۵؍مئی میں پیدا ہوئے اور ۳؍نومبر ۱۹۴۹ ؁ء میں وفات پا گئے۔ تقریباً ۳۷ برس کی زندگی میں انہوں نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔ جدید نظم میں اپنے سب سے زیادہ اہم تخلیقی کردار کے ساتھ انہوں نے غزل اور گیت کی شعری دنیا پر بھی اپنے گہرے نقش ثبت کئے۔ شاعری کے کچھ ہلکے پھلکے دوسرے نمونے بھی پیش کیے۔ جو بظاہر ہلکے پھلکے لگتے ہیں۔ لیکن اردو شاعری پر ان کے بھی نمایاں نقش موجود ہیں۔دنیا کے مختلف خطوں کے اہم شاعروں کی شاعری کے منظوم ترجمے، نثری ترجمے، تنقیدی و تعارفی مضامین ایسے ایسے انوکھے کام کیے کہ اپنے تو اپنے ، غیر بھی ان کی تقلید کرتے دکھائی دیں۔ میراجی اپنی طبیعت کے لا اُبالی پن کے باعث اپنی بہت ساری شاعری کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ جتنا سرمایہ جمع ہو سکا،اس میں میراجی کی ذاتی کوشش سے کہیں زیادہ ان کے قریبی احباب اور بعض ناقدین و محققین کی نہایت مخلصانہ کاوشوں کو دخل رہا ہے۔‘‘
اس اقتباس سے میراجی کے شعری کردار اور شخصی لا اُبالی پن کی ہلکی سی جھلک سامنے آئی ہے۔ ’’گفتگو‘‘ میں حیدرقریشی نے میراجی کے متعلق اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ میراجی کے ہم عصر فیضؔ اور ن۔ م۔ راشدؔ کے متعلق بھی دل کو چھو لینے والی باتیں ہیں۔ اور یہ بھی کہ میراجی یکسر نظر انداز بھی نہیں کیے گئے۔ ان پرمضامین بھی لکھے گئے۔ یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے۔ لیکن ان پر کام ہنوز باقی ہے۔ حیدر قریشی نے اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ کچھ مطبوعہ مضامین اس نمبر میں کافی معیاری ہیں لیکن کچھ مضامین نئے قلم کاروں نے تحریر کیے ہیں جسے ایڈیٹ کر کے اس میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ نمبر دیگر میراجی گوشوں اور نمبروں کے مقابل میں کافی اہم ہو گیا ہے۔ حیدرقریشی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اکیسویں صدی کے قلم کاروں کے میرا جی کے متعلق تاثرات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ اس نمبر میں کوائف میراجی کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے مرتب کیا ہے۔ اس مضمون میں آپ نے میراجی کااصل نام، ولدیت ، قلمی و فرضی نام ، تعلیم ، لقب اور وہ ہند وپاک کے کن کن شہروں میں رہے۔ کیا کیا اور کہاں وفات پائی۔ سن اور مورخہ کے ساتھ ساری معلومات فراہم کی ہے۔ علاوہ ازیں ان کی تخلیقی فتوحات اور شاعری ، تنقید اور تراجم کی کتابوں کے نام اور مقام اشاعت وغیرہ بھی درج کیے ہیں۔ اسے مستند مانا جائے گا۔ ہانی السعید (مصر) نے میراجی کے متعلق تحقیقی تنقیدی اور تخلیقی کاموں کی فہرست پیش کی ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے پتہ چلا کہ رشید امجد نے ’’میراجی : شخصیت اور فن‘‘ عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے پی ۔ ایچ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی تھی اور میراجی پر ایم فِل اور ایم ۔ اے کے مفصل مقالے اردو کے علاوہ عربی میں بھی لکھے گئے ۔میرا جی پر ناول بھی لکھا گیا ۔ رسائل نے مختلف واقعات میں نمبر بھی شائع کیے۔ انگریزی زبان میں بھی ان پر کام ہوا۔
میراجی کے ہم عصر، ن۔ م۔راشد اوراخترالایمان نے بھی اعترافیہ مضامین لکھ کر میراجی کو داد دی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے میراجی پر کل پانچ مضامین اس نمبر میں شائع کیے گئے ہیں۔ جو میراجی کی شخصیت اور خاص طورپر فن کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ وزیرآغا کے یہ مضامین میراجی فہمی کے لئے کافی اہم ہیں۔ قاری اگر ان پانچوں مضامین کو پڑھ لے تو میرا جی کی شاعری کی اہمیت سے واقف ہو جائے گا۔ وزیر آغا کے ان مضامین کے بعد طارق حبیب کا ایک عمدہ مضمون ’’ میراجی شناسی میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ ‘‘پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مضامین پڑھنے کے بعد اس نمبر کا قاری دیگر مشاہیر ادب کے مضامین پڑھنے کے لیے بے چین ہو جاتاہے۔ اور جب وہ میراجی کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں پر جیلانی کامران ، ساقی فاروقی، منظر حنفی ، عبداللہ جاوید، مختار ظفر، احمد ہمیش اور توحید احمد جیسے مستند اور مقبول قلم کاروں کی تحریریں پڑھتا ہے تو میراجی کی ادبی شخصیت کے ہمہ رنگوں سے اسے واقفیت ہو جاتی ہے۔ ذہین قاری میراجی شناس ہو جاتاہے۔ یہ ترتیب حیدرقریشی کی صحافتی صلاحیت کا مظہر ہے کہ نمبر کا ایک ایک صفحہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔ اس کی دلچسپی برقرار رکھتاہے۔
’’میراجی کی تنقید اور ترجمہ نگاری‘‘ کے باب میں سید وقار عظیم ، ناصر عباس نیر ، ڈاکٹر نذرخلیق، رشید امجد ، مبشر احمد میر وغیرہ کے مضامین کے مطالعے سے میراجی کی تخلیقی صلاحیتوں کے علاوہ ان میں جو تنقیدی شعور تھا اور فنِ ترجمہ نگاری میں جو انہیں مہارت تھی اس کی جانکاری ملتی ہے۔
’’میراجی : نئے لکھنے والوں کی نظر میں‘‘ اس باب میں ۱۲؍قلم کاروں کے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ یہ سب آج کے لکھنے والے ہیں۔ ان مضامین کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی نظر میں میراجی کا فن کیا ہے؟ یہ اس فن کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ ان قلم کاروں میں کسی نے میراجی کے ابہام اور جمالیات پر لکھا ہے تو کسی نے ان کی نظموں کی چیستانی صورت حال پر اظہار خیال کیا ہے۔ کسی نے میرا جی کو جنسی آسودگی کا شاعر قرار دیا ہے۔ تو کسی نے ان کی نظموں کو ان کے عہد کے تناظر میں دیکھا اور گفتگو کی ہے۔ اسی باب میں حیدر قریشی نے اپنی بات کہنے کی راہ نکالی ہے۔ انہوں نے دومضامین ’’ترقی پسند نظم نمبراور میراجی ‘‘ اور ’’میراجی شخصیت اور فن ‘‘ لکھ کر حق ادا کر دیا۔ یہ باب بھی قاری کے لیے سودمند ہے کہ اس میں طرح طرح سے میراجی کی شاعری کے رُخ دکھائے گئے ہیں۔ اور سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
میرا جی کی شاعری کا انتخاب (۱۹گیت ، تیرہ غزلیں ، ۱۹ نظمیں) خوب تر ہیں۔ اس انتخاب سے میراجی کی شاعری کا ادبی کردار قاری کے سامنے آتا اور داد پاتاہے۔ اس نمبر میں میراجی کی نثر کا انتخاب بھی کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر چار مضامین شائع کئے گئے ہیں۔ میراجی کی نثر میں روانی ، بیباکی اور ادبی سچائی کی خوبو نظر آتی ہے۔ اگر یہ نثر لکھتے اور زیادہ لکھتے تو یقیناًادب کے سرمایے میں اضافہ ہوتا۔ ان مضامین کو پڑھ کر قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس باب میں ایّوب خاور کا ’’میرا جی کے حوالے سے ایک خط‘‘ بھی شائع کیا گیا ہے۔ جو میراجی کے فن کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔اگلے باب میں میراجی کو منظوم خراج عقیدت پیش کی گئی ہے۔ یہ آج کے شعراء کا کلام ہے۔ اس کی ابتداء میں حیدر قریشی نے چند سطور رقم کی ہیں۔
’’میراجی کے بارے میں چند شعرائے کرام نے نظمیں بھیجی ہیں۔ جبکہ بیشتر نے میراجی کی کسی غزل کی زمین میں غزل کہنا مناسب سمجھا ہے۔ دونوں صورتیں ہی اپنی جگہ اچھی ہیں۔ آج کے شعراء کا میراجی کی شاعری کی طرف متوجہ ہونا میراجی کے قریب آنے اور ان کی ادبی تفہیم کے لیے نیک فال ثابت ہوگا‘‘۔(جدید ادب ، میراجی نمبر ۔ ص ۴۷۴)
یہاں نمونتاً کچھ عصرِ حاضر کے شعراء کی غزلوں کے مطلعے میراجی کی طرح و ز مین میں درج کیے جاتے ہیں۔
بدلا بدلا ہے ہر منظر ، گلی محلہ بھول گیا
یاد رہا وہ لیکن اس کا چہرہ مہرہ بھول گیا
(ندافاضلی ، انڈیا)
لب کُشائی کی اجازت دلِ آزاد نہیں
ضبط شیوہ ترا، زیبا تجھے فریاد نہیں
(ڈاکٹر پنہاں ، امریکہ)
روز و شب کا حصار ہے اپنا
کس لیے انتظار ہے اپنا
(شاد اب احسانی ، کراچی)
وہ مری دم بخودی ہے یا ہوا قاتل ہے
اس نئے شہر میں تو رُکتا ہوا سا دل ہے
(ڈاکٹر ریاض اکبر، آسٹریلیا)
زیست اپنی خوب سے بھی خوب تر ہو جائے گی
کیا خبر تھی چشم تر بھی معتبر ہو جائے گی
(شکیل عادِل ، مُلتان)
اس باب میں ایوب خاور ، ڈاکٹر رضیہ اسماعیل ، فہیم انور ، شہباز نیر کی میراجی پر کہی ہوئی آزاد اور پابند نظمیں بھی شامل ہیں۔ آخر میں میراجی کی نظم ’’اجنتا کے غار‘‘ سے متاثر ہو کر حیدرقریشی نے ایک نظم ’’اجنتا کے غار کی ایک تصویر‘‘ لکھی ہے۔ یہ ساری نظمیں سلیقے اور محبت سے کہی گئی خوبصورت نظمیں ہیں۔
آخری باب ’’مختلف زبانوں میں میراجی کی نظموں کے تراجم ‘‘ ہے۔ اس باب میں انگریزی ، جرمن ، روسی ، ڈچ ، اٹالین، عربی ، ترکی اور فارسی زبانوں میں میراجی کی نظموں کے تراجم شائع کئے گئے ہیں۔ ’’انتظاریہ ‘‘ کے تحت شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون ’’میرا جی سوبرس کی عمر میں ‘‘ میراجی کے شعری ہُنر پر پُر مغز مضمون ہے۔ جو کہ میراجی کو خراجِ محبت بھی ہے اور ار دو کے سنجیدہ قاری کے لیے گرانقدر تحفہ بھی۔ ’’جدید ادب ‘‘ کا میراجی نمبر ایک ادبی دستاویر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نمبر’’میراجی شناسی ‘‘ کے نئے نئے در کھولتا ہے۔ اس نمبر نے میراجی کی صد سالہ سالگرہ پر ان کی عمر اور بڑھا دی ہے۔ قابل مبارکباد ہیں،حیدرقریشی کہ ان کے ہاتھوں یہ تاریخی اور دستاویزی کام انجام پایا۔ *****
مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۔۸؍نومبر ۲۰۱۲ء

http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=906
..............................................................

میرا جی… جنازہ کیسے اٹھا، سال کیسے منایا گیا

  انتظار حسین


ن م راشد کا سال، پھر فیض کا سال، پھر منٹو کا سال، تواتر کے ساتھ تینوں سال پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی شایان شان طریقے سے منائے گئے۔
منٹو کا سال ہنوز جاری ہے۔ بس اب آخری دموں پر ہے۔ نومبر کا مہینہ شروع ہے۔ آگے دسمبر ہے۔ راوی اس کے ساتھ منٹو کے سال کا تمت بالخیر لکھتا ہے۔
بس انھیں مہینوں میں کسی بھلے مانس کو اچانک خیال آیا کہ سنتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرا جی بھی تھا۔ اور اس کی پیدائش کا سو واں سال بھی اتفاق سے یہی 2012ہے۔ میرا جی کو بھی معمولی شے مت سمجھو۔ اردو شاعری میں جدیدیت کو صحیح معنوں میں متعارف کرانے والا اور نظم آزاد کو سب سے بڑھ کر قائم کرنے والا تو وہی ہے۔ کل اسی شہر لاہور میں میرا جی کے اثر میں شاعروں کا ایک پورا گروہ جدیدیت کے نام پر پروان چڑھا تھا۔ مختار صدیقی، قیوم نظر، یوسف ظفر، ضیاء جالندھری، مبارک احمد۔ اور ہاں اعجاز بٹالوی اور الطاف گوہر بھی اسی مکتبۂ فکر کے ہونہار فرزند تھے۔ حلقۂ ارباب ذوق اسی مکتبۂ فکر کی نمایندگی کرتا تھا۔ اور جب میرا جی اس دنیا سے سدھار گئے تو حلقہ کتنی باقاعدگی سے سال کے سال یوم میرا جی مناتا تھا اور میرا جی کے واسطے سے سال کے سال جے جے ونتی کا راگ کس پابندی سے ادیب سنا کرتے تھے۔ لیکن اس مکتبۂ فکر کے وہ شاعر ایک ایک کر کے سب دنیا سے سدھار چکے ہیں اور حلقہ بھی اب وہ حلقہ نہیں رہا ہے۔ وہ ہوتے تو میرا جی کے نام پر کچھ دال دلیا ہو جاتا۔
بہرحال نئے ادب کے نام لیوائوں کے حلقہ میں سے کسی کسی کو غیرت آئی اور اس نے میرا جی پر قلم اٹھایا۔ اچانک خبر ملی کہ لمز میں میرا جی کی یاد میں تقریب ہو رہی ہے۔ اس پر مبارک احمد کے فرزند ارجمند ایرج مبارک کی غیرت نے جوش کھایا اور وہ جو مہینے کے مہینے ان کی ادبی انجمن کا اجتماع کسمو پولیٹن کلب میں ہوتا ہے وہ اب کے ان کے والد مبارک احمد کے اولین گرو میرا جی سے منسوب کر دیا گیا۔ اگلے دن اتوار تھا۔ اور ہم نے دیکھا کہ ڈان (اخبار) نے اپنے ہفتہ وار ایڈیشن ’بُکس اینڈ آتھرز، کا اس ہفتے والا شمارہ، میرا جی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ اور اسی ہنگام جرمنی سے رسالہ ’جدید ادب‘ کا ایک ضخیم خصوصی نمبر موصول ہوا۔ یہ میرا جی نمبر تھا۔ حیدر قریشی نے اسے مرتب کیا ہے اور بڑی کاوش سے چیزیں جمع کی ہیں۔
تو لیجیے آخر کے تئیں میرا جی کا سال بھی لشتم پشتم منا ہی لیا گیا۔ یہ بھی بہت غنیمت ہے۔ میرا جی کا بمبئی شہر میں انتقال ہوا تھا۔ شہر میں جہاں اس زمانے میں اردو کے ادیبوں کی بہت یلغار تھی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا تو وہ ہیڈکوارٹر تھا وہاں میرا جی کے جنازے پر صرف پانچ آدمی تھے۔ اختر الایمان، مہندر ناتھ، مدھو سودن، اختر الایمان کے ہم زلف آنند بھوشن اور فلم ڈائریکٹر نجم نقوی۔ اس لحاظ سے میرا جی کے سال کا یہ نقشہ بہت اطمینان بخش ہے۔
ہاں لیجیے ہم میرا جی سال کی اختتامی تقریب کو تو بھول ہی چلے تھے۔ وہ بھی سن لیجیے۔ انھی برسوں میں فرانس کا ایک نوجوان دانشور ژولیاں وارد ہوا۔ ریڈ کراس سے وابستہ تھا۔ اس کے سارے لچھن وہی تھی جو فرانس کے دانشوروں اور شاعروں سے منسوب چلے آتے ہیں۔ اسے اِس دیس کی زبانوں اور ادبیات سے کچھ زیادہ ہی شغف ہو گیا۔ میرا جی مخصوص طور پر اس کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان کی شخصیت اور شاعری کو سونگھ کر وہ چونکا کہ یہاں سے تو کچھ اپنے شاعرِ اعظم بادلیئر کی مہک آ رہی ہے۔ اس نے میرا جی کی ذات کو مرکز بنا کر اردو میں ایک ناول لکھ ڈالا۔
ہم نے وہ ناول پڑھا اور اس سے کہا کہ برادر یہ ناول فرانسیسی رنگ ڈھنگ کا ہے جو اردو میں لکھا گیا ہے۔ میرا جی اس ناول کا مستحق تھا۔ اس نے بھی تو فرانس کے زوال پسند، شعری اسکول سے خاص طور پر بادیلیئر سے بہت رس اور چس حاصل کیا تھا۔ وہی بادیلیئر جس کا ذکر ہمارے ترقی پسند دانشور کس حقارت سے کیا کرتے تھے کہ وہ فرانس کا بیمار ذہن آتشک زدہ شاعر بادیلیئر۔ ہمارا یار عزیز مظفر علی سید اس بیماری کو فرانسیسی بیماری بتاتا تھا۔ اس عنوان سے اس نے ایک کہانی بھی لکھنی شروع کی تھی۔ مگر اس کے دوسرے کاموں کی طرح یہ کہانی بھی ادھوری رہ گئی۔ میرا جی نے اپنی جان پر کھیل کر اس کہانی کو مکمل کیا۔ پھر بمبئی میں تو اس پر دن بھاری ہی گزرنے تھے۔
میرا جی کے بمبئی جانے کی تقریب کیسے نکلی، یہ بھی سن لیجیے۔ میرا جی کی دھوم تو لاہور سے شروع ہوئی تھی۔ مولانا صلاح الدین احمد کے رسالہ ’ادبی دنیا‘ کو انھوں نے اپنی ادبی رزم گاہ بنایا ہوا تھا۔ مگر ادھر دلی میں پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بنے بیٹھے تھے۔ اردو کے ادیبوں کو تخصیص کے ساتھ نوازا جا رہا تھا۔ اور لاہور کے ادیبوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ بس جیسے کسی بھلے وقت میں دلی کا ہر شاعر لکھنؤ کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا اسی طرح اب لاہور کا ہر ہونہار ادیب دلی کی طرف لپک رہا تھا۔ میرا جی بھی دلی کی طرف چل پڑے۔
خیر وہاں تو اس وقت ہر رنگ کا ادیب جمع تھا۔ میرا جی کو آسانی سے قدر دان میسر آ گئے۔ مگر جب ایک اور رو آئی اور ادیبوں نے فلموں کی چکا چوند میں دلی سے بمبئی کی طرف زقند لگائی تو میرا جی نے بھی پھر ادھر ہی کا رخ کیا۔
بمبئی میں میرا جی کا آغاز تو ایسا برا نہیں تھا۔ اختر الایمان جیسا بھلا مانس رفیق انھیں میسرآ گیا۔ ایک رسالہ ’خیال‘ کے نام سے نکالا۔ اختر الایمان ان کے شریک کار تھے۔ میرا جی کے قلم کی جولانیوں نے ’خیال‘ کو کیا سے کیا بنا دیا۔ مگر تابکے۔ پٹری سے اتری اس ذہین و فطین شخصیت نے کیا کیا روگ پال رکھے تھے۔ جب امراض نے زور پکڑا تو اختر الایمان انھیں اپنے گھر لے آئے۔ اس کی ساری تفصیل اختر الایمان نے اس خط میں لکھی ہے جو انھوں نے رشید امجد کے نام لکھا تھا اور جو اب حیدر قریشی کے مرتب کردہ میرا جی نمبر میں شایع ہوا ہے۔
میرا جی کی حالت بگڑتی ہی چلی گئی۔ جب حالت زیادہ دگرگوں ہوئی تو انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اسپتال میں ان سے ایک ملاقات اعجاز بٹالوی نے کی تھی۔ اس کا احوال بھی سن لیجیے۔ لندن جاتے ہوئے بمبئی میں پڑائو کیا۔ میرا جی سے ملنے اسپتال گئے تو کیا دیکھا۔
’’میرا جی کے پلنگ کے ساتھ دوسرے مریض کو الگ کرنے کے لیے ایک اسکرین لگا دی گئی تھی۔ میں نے دیکھا، میرا جی کچھ پریشان ہیں۔ اتنے میں اسکرین کی دوسری طرف سے ایک دلدوز چیخ بلند ہوئی۔ میرا جی کا ہمسایہ دنیا سے جا چکا تھا۔ میرا جی نے مجھ سے کہا ’’وہ میری مالا اٹھا دیجیے میں عبادت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
انھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور ان کی مالا کے منکے ان کی انگلیوں سے پھسلنے لگے۔ چند منٹ کے بعد انھوں نے آنکھیں کھولیں اور مالا کو ایک ’’طرف رکھ دیا۔‘‘
دوسرا منظر جو انھوں نے دیکھا وہ یوں ہے کہ ایک پادری دوسرے مریضوں سے گزر کر میرا جی کے پاس آن پہنچا ’’اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت ڈوری تھی جس کے سرے پر مر مر کا بنا ہوا مسیح مصلوب کا ایک خوبصورت مجسمہ لٹک رہا تھا۔ اس نے قریب ہو کر میرا جی کے سامنے یہ مجسمہ لہرایا۔ میرا جی نے کہا ’’ان کو میں ہمیشہ سے جانتا ہوں۔ مگر آپ سے ملاقات نہیں۔‘‘
پادری نے کہا ’’آپ یسوع کی برکت سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ میرا جی بولے ’’آپ جب پچھلے ہفتے یہاں آئے تھے تو آپ نے میرے سامنے والے مریض سے یہی کہا تھا۔ وہ آج ٹھیک ہو گیا ہے۔‘‘
پادری صاحب کچھ پریشان ہوئے۔ مسکرا کر میرا جی کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’آپ اسپتال میں کب سے ہیں۔‘‘
جواب دیا ’’روز ازل سے یہیں ہوں۔‘‘
اعجاز بٹالوی کی اس ملاقات کے تھوڑے ہی دن بعد میرا جی آخر جان ہار گئے۔ اب اختر الایمان کی سنیے ’’میرا جی اپنے زمانے کا بڑا نام تھا۔ میں نے بمبئی کے تمام ادیبوں کو اطلاع بھجوائی۔ اخبار میں بھی چھپوایا۔ مگر کوئی ادیب نہیں آیا۔ جنازے کے ساتھ صرف پانچ آدمی تھے۔‘‘ وہی جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ایسے پراگندہ خاطر پراگندہ دل کا جنازہ ایسے ہی اٹھنا تھا اور سال بھی اسی رنگ سے منایا جانا تھا۔

مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس،لاہور

9.11.2012  


................................................................

انتظار حسین کے کالم کے حوالے سے دو وضاحتیں
  انتظار حسین کے اس کالم کے حوالے سے دو وضاحتیں
 کرناضروری ہیں۔

’’جدید ادب‘‘کا میرا جی نمبرجولائی ۲۰۱۲ء میں چھپ گیا تھا اور اگست،ستمبر تک پاکستان کے احباب تک پہنچ چکا تھا۔انتظار حسین کو بھی تب ہی رسالہ مل چکا تھا۔اب اس کالم میں انہوں نے ڈیلی ڈان 4 نومبر2012ء  میں پانچ مضامین کے ایک ساتھ چھپنے کو اولیت دی ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کام پہلے ہوا ہے اور جدید ادب کا میرا جی نمبر بعد میں آیا ہے۔ افسوس دانستہ یا نادانستہ دیا گیا یہ تاثر خلافِ واقعہ ہے۔جدید ادب کے میرا جی نمبر کے اعتراف میں کسی کو انقباض ہے تو ویسے ہی اسے نظر انداز کر دیں لیکن حقائق کو مسخ نہ کریں۔
........................
میرا جی کی موت کا انتظار حسین جیسے بظاہر مرنجاں مرنج ادیب نے جس طرح ذکر کیا ہے،یہ بھی ان کے عمومی مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔میرا جی کی تدفین پر زیادہ لوگوں کا نہ آنا محض اس وجہ سے تھا کہ تقسیم بر صغیر کے معاََبعد کا زمانہ تھا،میرا جی کو پاکستانی مان کر اور بھارت کی تب کی دہشت زدہ سیاسی فضا کی وجہ سے لوگوں نے آخری رسومات میں شرکت سے گریز کیا۔اس بات کو اچھے پیرائے میں بیان کیا جا سکتا تھا۔تاہم اگر اسی حوالے سے ن م راشد اور مجید امجد کا ذکر کیا جائے تو کیا انتظار حسین اتنی ہی بے حسی اور سفاکی کے ساتھ ان کے انجام کا ذکر کریں گے؟
ن م راشد کی میت کو جلایا گیا،کیا انتظار حسین اسے کریا کرم کہیں گے؟۔۔۔اسی طرح مجید امجد کی لاش کو گندگی کے ٹرک پر ڈال کر ان کے گاؤں بھیجا گیا۔کیا اس بے رحمی کا اتنا ہی مزہ لے کر ذکر کریں گے جس طرح انہوں نے میرا جی کی موت کا ذکر کیا ہے،جبکہ میرا جی کی آخری رسومات ان ظاہری باتوں کے حوالے سے راشد اور مجید امجد کے مقابلہ میں کہیں بہتر طور پرادا ہوئیں۔یہاں مقصد راشد یا مجید امجدکی ا موات اوران کے ساتھ روا رکھے جانے والے آخری سلوک پر بحث کرنا نہیں ہے،یہ ہمارے معاشرے کی بہت ساری مکروہات کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔مقصد صرف اتنا ہے کہ میرا جی کی موت کو اتنی سفاکی سے بیان نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر انتظار حسین جیسے تہذیب کے نمائندہ ادیب بھی اپنی برادری کے اہم لوگوں کا اس طرح ذکر کرنے لگے تو پھر اپنی موجودہ تہذیب کی حالتِ زار کا رونا کیسا؟

حیدر قریشی

...............................................................