جدید ادب کامیرا جی نمبر
جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر پر جو تبصرے،مضامین وغیرہ شائع ہوئے تھے،انہیں اسی ویب سائٹ کے اس لنک پر یک جا کر دیا گیا تھا۔
http://poetmeeraji.blogspot.de/2012_09_01_archive.html
اب مزید کچھ مضامین اور تبصرے سامنے آئے ہیں تو انہیں یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔مزید جو مضامین سامنے آئے انہیں بھی یہیں جمع کر دیا جائے گا۔
http://poetmeeraji.blogspot.de/2012_09_01_archive.html
اب مزید کچھ مضامین اور تبصرے سامنے آئے ہیں تو انہیں یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔مزید جو مضامین سامنے آئے انہیں بھی یہیں جمع کر دیا جائے گا۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جدید ادب کا میرا جی نمبر
ایم۔ خالد فیاض
(مدیر ’’تناظر‘‘گجرات،پاکستان)
کبھی کبھی مجھے اُردو تنقید پر ہمارے کلاسیکی شعرا کے پیش کیے گئے محبوب جیسا گمان ہوتا ہے جس کے آگے تخلیق کار ایک عاشق زار کی سی حالت میں نظر آتا ہے۔ لطف و کرم پر مائل ہو تو کیا کیا مہربانیاں نہیں کرتی اور اگر طبعیت بے زاری پر اُتر آئے تو بے اعتنائی کے وُہ وُہ مظاہرے کہ الحذر۔
ہماری تنقید سے جن تخلیق کاروں کے ساتھ ظالمانہ حد تک بے رُخی برتی اُن میں ایک میرا جی بھی ہیں۔ بنیادہ طور پر ہمارے معاشرے میں تماشا گیرانہ صفات بہت زیادہ پائی جاتی ہیں اور ہر وُہ جیز جو معمول سے ہٹ کر ہو، ہمارے لیے ’’تماشا‘‘ بن جاتی ہے۔ اور میرا جی تو عام ڈگر سے اچھے خاصے ہٹے ہوئے تھے۔ لہٰذا ہمارے لیے وُہ ایک ’’تماشا‘‘ ٹھہرے اور ہماری تنقید، ہماری ’’تماشا گیرانہ صفات‘‘ کا اظہاریہ۔ یہی وجہ ہے کہ میرا جی پر جو تھوڑی بہت تحریریں تنقید کے نام پر سامنے آئیں اُن میں بیشتر میرا جی کی شخصیت، لباس، حلیہ اور کچھ ’’خاص عادات‘‘کا بیانِ محض بن کر رہ گئیں جب کہ اُن کے فن اور تخلیقات پر سنجیدہ تنقیدی کاوشیں خال خال ہی نظرآئیں۔
اِس سال جب میرا جی کی سوویں سالگرہ آئی تو امید تھی کہ ہماری تنقید میرا جی کی طرف اپنی خاص اور سنجیدہ توجہ صرف کرے گی لیکن ناقدین نے اب بھی میرا جی سے ایسی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا کہ اسے انتہا درجہ کہ سرد مہری کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایسے میں جب حیدر قریشی نے ’’جدید ادب‘‘ کا ’’میرا جی نمبر‘‘ شائع کیا تو وہ کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوا۔ حیدر قریشی نے میرا جی پر ایسا ضخیم اور معیاری نمبر نکال کر اِس سال بھی اُردو ادیبوں کی قائم رہنے والی بے اعتنائی کا کسی حد تک مداوا کر دیا۔
اِس خصوصی اشاعت کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِس کے پیچھے حیدر قریشی کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی نظر آتی ہے کیوں کہ اِس اشاعت پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ میرا جی پر محض ایک خصوصی اشاعت اُن کا مقصد نہیں تھا بلکہ اُن کا مقصد میرا جی کو اُن کی تمام تر حیثیات کے ساتھ پیش کرنا تھا۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ حیدر قریشی اِس میں بہ احسن و خوبی کامیاب رہے ہیں۔
اپنی گفتگو (اداریہ) میں حیدر قریشی نے چند بہت اہم باتیں کی ہیں مثلاً؛ ’’میرا جی سے بہت سارے لکھنے والوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اکتساب کیا، فیض اُٹھایا لیکن عمومی طور پر غالباً اُن کی عوامی مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے، اُن کے اعتراف میں بخل سے کام لیا۔‘‘ اور یہ کہ ’’کسی شاعر اور ادیب کے مقام کا تعین اُس کی تخلیقات اور نگارشات کے ذریعے ہی کیا جانا چاہیے۔ اگر اِس میں مذہبی و مسلکی معاملات کو بنیاد بنا کر کسی تخلیق کار کا مقام طے کرنے کے منفی رویہ کو فروغ دیا جانے لگا تو اِس سے اُردو ادب میں طالبانی رویہ فروغ پائے گا جو ادب کے لیے کسی زہر سے کم نہیں۔‘‘ یا پھر یہ کہ ’’ہماری بد قسمتی ہے ہم لوگ اپنے معاشرے کے دوہرے معیار کے عین مطابق ظاہری اخلاقیات کے تحت آنے والے کسی عیب پر رُک کر رہ جاتے ہیں، اور پھر اِس تخلیق کار کا سارا ادبی کام پس پشت چلا جاتا ہے۔ میرا جی بڑی حد تک اِسی منفی رویے کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی حیدر قریشی نے چند اہم تنقیدی مسائل کی طرف محض اشارے کرنے کی بجائے انھیں بھر پور طریقے سے اُٹھایا ہے تاکہ وُہ تنقیدی دنیا میں مکالمہ پیدا کر سکیں۔
اِس کے بعد اِس خصوصی اشاعت میں ’’کوائفِ میرا جی‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی، ’’میرا جی کے بارے میں تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی کام‘‘ از ہانی السعید اور دو خطوط؛ ایک ن۔ م۔ راشد کا میرا جی کے نام اور ایک اخترالایمان کا میرا جی کے بارے میں رشید امجد کے نام خط شامل ہے۔
میرا جی کے فن پر تنقیدی مقالات کو چار مختلف حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پہلا حصّہ ’’میرا جی شناسی اور وزیر آغا‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں ڈاکٹر وزیر آغا کی میرا جی کی فکر اور فن پر مختلف اوقات میں لکھی گئی پانچ تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے۔ جس سے نہ صرف یہ کہ میرا جی کی مختلف فنی اور فکری جہات کا خوب احاطہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کی میرا جی کی شاعری مستقل ڈاکٹر وزیر آغا کے مطالعہ میں رہی ہے۔ اِن مضامین نے میرا جی شناسی میں کیا اہم کردار ادا کیا ہے اِس کے لیے اِن مضامین کے آخر میں طارق حبیب کا مفصل مضمون دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرا حصّہ ’’میرا جی کی شخصیت اور شاعری‘‘ کے عنوان سے ہے۔ لیکن یہاں ایسے مضامین پیش کیے گئے ہیں جن میں میرا جی کی اُسی لگی بندھی ’’شخصیت‘‘ سے بڑی حد تک گریز برتا گیا ہے جو اب تک ناقدین کا محبوب موضوع رہی ہے۔ اِن مضامین میں جیلانی کامران، ساقی فاروقی، مظفر حنفی اور عبداللہ جاوید کے مضامین بہت اہم کہے جا سکتے ہیں۔
تیسرے حصّے کو ’’میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے یعنی اِس حصّے میں میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ میرا جی کی تنقید پر سید وقار عظیم اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کے مضامین بلا شبہ خاصے کی چیز اور ترجمہ نگاری کے حوالے سے ’’میرا جی کا نگار خانہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہوامبشر احمد میر کا مضمون تحقیق کی بنیاد پر فراہم کردہ اہم معلومات کی وجہ سے قابلِ تعریف ہے۔
چوتھا حصّہ ’’میرا جی: نئے لکھنے والوں کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس کے عنوان سے واضح ہے کہ یہاں نئے لکھنے والوں کے میرا جی پر مضامین پیش کیے گئے ہیں۔ اِن نئے لکھنے والوں کے بارے میں حیدر قریشی اپنی گفتگو (اداریہ) میں لکھتے ہیں؛ ’’نئے مضامین کے حصول کے سلسلہ میں ایک خوش کُن پہلو یہ سامنے آیا کہ نئے لکھنے والوں نے اِس میں گہری دلچسپی لی۔ جو مضامین موصول ہوئے اُن میں سے بعض کمزور مضامین کو بھی تھوڑا بہت ایڈٹ کر کے شامل کر لیا گیا، مقصد یہ تھا کہ نئے لکھنے والے میرا جی کے مطالعہ میں دلچسپی لیں۔‘‘ حیدر قریشی کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوئی اور ہمیں یہاں بھی چند اہم مضامین پڑھنے کو ملے۔ خاص طور پر معید رشیدی کا ’’ابہام کی جمالیات: میرا جی‘‘، قاسم یعقوب کا ’’میرا جی کی نظموں کی چیستانی صورت حال‘‘، مستبشرہ ادیب کا ’’جنسی آسودگی کا خواہش مند شاعر: میرا جی‘‘، احتشام علی کا ’’میرا جی کی نظمیں: اپنے عہد کے تناظر میں‘‘ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کا ’’میرا جی کی غزل! ایک نئے لسانی پیرائے میں‘‘، شکیل کوکب کا ’’میرا جی کے گیت: ایک تعارف، ایک تجزیہ‘‘ اور سید اختر علی ’’میرا جی کی نظم ’سمندر کا بلاوا‘ اور اُس کے رنگ‘‘ خصوصی اہمیت کے حامل مضامین ہیں۔ اِن مضامین کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ نئے لکھنے والوں نے میرا جی کی نظم، گیت اور غزل؛ تینوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔
اِس کے بعد میرا جی کی شاعری کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ انیس (۱۹) گیت، تیرہ (۱۳) غزلیں اور اَسّی (۸۰) نظموں پر مشتمل یہ ایک بھر پور انتخاب ہے جس کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ حیدر قریشی نے ممکنہ حد تک میرا جی کی نمائندہ تخلیقات کا انتخاب کیا ہے اور اِس کے لیے انھیں کس قدر فکر و تامل سے کام لینا پڑا ہو گا اِس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اِس کے علاوہ میرا جی کی نثر (تنقید) کا بھی انتخاب شامل ہے گو اِس میں تشنگی کا کسی قدر احساس ہوتا ہے کیوں کہ یہاں میرا جی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ میں سے جن دو مضامین کو منتخب کیا گیا ہے اُن دونوں کا تعلق مغربی شاعروں سے ہے۔ کم سے کم اگر ایک مضمون کسی مشرقی شاعر کے حوالے سے بھی شامل کر لیا جاتا تو میرا جی کی نثری جہات کا احاطہ کافی حد تک ہو جاتا۔
’’میرا جی کو منظوم خراج عقیدت‘‘ ایک الگ حصّہ بنایا گیا ہے جس میں مختلف شعرا نے میراجی سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار، میرا جی پر نظمیں یا اُن کی زمین میں غزلیں لکھ کر کیا ہے۔ اِس کے بعد ایک بہت اہم حصّہ ’’مختلف زبانوں میں میرا جی کی نظموں کے تراجم‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اِس میں میرا جی کی چند اہم نظموں اور ایک گیت کے انگریزی، جرمن، روسی، ڈچ، اٹالین، عربی، ترکی اور فارسی جیسی آٹھ بڑی زبانوں میں تراجم شائع کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اِن تراجم کے معیار پر بات کرنا ممکن نہیں (کہ اِس کے لیے ان تمام زبانوں سے آگاہی ضروری ہے) مگر اتنا معلوم ضرور ہو جاتا ہے کہ ان بڑی زبانوں میں میرا جی کے کلام سے شغف کا عنصر موجود ہے۔
حیدر قریشی نے میرا جی پر انتظار حسین، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر امجد پرویز کے مختصر مگر جامع انگریزی مضامین بھی شامل کرنا ضروری خیال کیا جس سے اشاعت کے معیار کو یقیناًتقویت ملی ہے۔ آخر میں ’’انتظاریہ‘‘ کے ضمن میں شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون ’’میرا جی؛ سو برس کی عمر میں‘‘ شامل ہے۔ یہ مضمون اِس اشاعت کے لیے آخری لمحوں میں موصول ہوا۔ اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’میرا جی شناسی‘‘ میں یہ مضمون اہم ترین اضافہ ہے۔ اگرچہ مضمون اختصار کا شکار نظر آتا ہے (غالباً وقت کی کمی اس کی وجہ رہی ہو گی) بے شک ابھی اور تفصیل سے لکھے جانے کی گنجائش موجود تھی لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ کم وقت میں اختصار کے باوجود انھوں نے میرا جی سے ہر طرح معاملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر میرا جی کی نظم ’’بعد کی اڑان‘‘ کا تفصیلی تجزیہ خاصے کی چیز ہے۔ ایک بات شمس الرحمٰن فاروقی کی ضرور کھٹکی اور کوشش کے باوجود حلق سے نہیں اُتر سکی، لکھتے ہیں:
’’میں یہ بات کئی بار کَہہ اور لکھ چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ اقبال کے فوراً بعد آنے والے پانچ بڑے شعرا کی ترتیب میں میرا جی سب سے اوپر ہیں، پھر راشد، ان کے بعد اخترالایمان پھر مجید امجد اور سب سے بعد میں فیض ہیں۔‘‘
مسئلہ یہ نہیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے میرا جی کو ہی سرِفہرست کیوں رکھا کسی اور کو کیوں نہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شاعر کی عظمت کا قائل اسی صورت میں ہی ہُوا جا سکتا ہے جب اُسے دیگر بڑے شاعروں میں سرِفہرست رکھا جائے اور اُن بڑے شاعروں کو اُس کے سامنے چھوٹا ثابت کیا جائے؟ اور جو دو وجوہات میرا جی کو دیگر شعرا میں سرِفہرست رکھنے کی شمس الرحمٰن فاروقی نے بیان کی ہیں (تفصیل کے لیے مقالہ دیکھیے) کیا انھی وجوہات کی بنا پر ہی کوئی شاعر سرِفہرست ہوتا ہے؟ اور کیا دیگر شعرا کو سرِفہرست لانے کے لیے کچھ اور دلائل کام میں نہیں لائے جا سکتے؟ اور پھر سب سے اہم سوال یہ کہ ہم کب تک درجہ بندی کی بنیاد پر شاعروں کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتے رہیں گے۔ میرا جی کی عظمت اس بات میں ہے کہ اُن کی تخلیقات بڑی ہیں، اس لیے نہیں کہ راشد، مجید امجد، اخترالایمان اور فیض کی تخلیقات کم تر درجہ کی ہیں یا ان شعرا کے بڑا ہونے میں کوئی شک ہے۔ لہٰذا اس طرح کی ’’درجہ بندانہ تنقید‘‘ کا رواج اب ختم ہو جانا ہی بہتر ہے۔
بہر حال ’’جدید ادب‘‘ کا یہ ’’میرا جی نمبر‘‘ میرا جی شناسی میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہے گا اور اِس کا سارا کریڈٹ حیدر قریشی کو جاتا ہے جنھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اِس خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔
جدید ادب اور میراجیؔ نمبر
*
از:سید اختر علی ....ناندیڑ،انڈیا
لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں
یہ پھیلا آسمان اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا؟
ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں
کوئی دل سے پھسل جاتی کوئی سینہ میں چبھ جاتی
انہی باتوں کی لہروں پر بہا جاتا ہے یہ بجرا
جسے ساحل نہیں ملتا‘‘
وہ کیسی مسکراہٹ تھی ،بہن کی مسکراہٹ تھی
میرا بھائی بھی ہنستا تھا
وہ ہنستا تھا،بہن ہنستی ہے اپنے دل میں کہتی ہے
یہ کیسی بات بھائی نے کہی،دیکھو
وہ امّاں اور ابّا کو ہنسی آئی
مگر یوں وقت بہتا ہے تماشا بن گیا ساحل
مجھے ساحل نہیں ملتا‘‘
عشق میں ایسا ڈوب گیا وہ نام ہی اپنا بھول گیا
میراجی کی غزلیں نظمیں ہیں برجستہ افضل جی
جب بھی پڑھنے بیٹھا ہوں میں اپنا لکھا بھول گیا
(افضل چوہان،ص۴۸۴)
مجھے حیدرؔ نے دکھائی یہ زمیں میراجیؔ
مرے اقبال میں اس کی بھی خطا شامل ہے
(ڈاکٹر ریاض اکبر،ص۴۸۰)
کچھ تو خبر لے ،نقشِ پا کا یونہی ساتھ نبھانے میں
کتنی سانسیں ٹوٹ چکی ہیں تیرے آنے جانے میں
(وسیم فرحت کارنجوی،ص۴۸۸)
رات نئی اب آئے گی
چندر ماں کو ساتھ لائے گی
نور کی ندی بہہ نکلے گی ایسا رنگ جمائے گی۔
کبھی کبھی مجھے اُردو تنقید پر ہمارے کلاسیکی شعرا کے پیش کیے گئے محبوب جیسا گمان ہوتا ہے جس کے آگے تخلیق کار ایک عاشق زار کی سی حالت میں نظر آتا ہے۔ لطف و کرم پر مائل ہو تو کیا کیا مہربانیاں نہیں کرتی اور اگر طبعیت بے زاری پر اُتر آئے تو بے اعتنائی کے وُہ وُہ مظاہرے کہ الحذر۔
ہماری تنقید سے جن تخلیق کاروں کے ساتھ ظالمانہ حد تک بے رُخی برتی اُن میں ایک میرا جی بھی ہیں۔ بنیادہ طور پر ہمارے معاشرے میں تماشا گیرانہ صفات بہت زیادہ پائی جاتی ہیں اور ہر وُہ جیز جو معمول سے ہٹ کر ہو، ہمارے لیے ’’تماشا‘‘ بن جاتی ہے۔ اور میرا جی تو عام ڈگر سے اچھے خاصے ہٹے ہوئے تھے۔ لہٰذا ہمارے لیے وُہ ایک ’’تماشا‘‘ ٹھہرے اور ہماری تنقید، ہماری ’’تماشا گیرانہ صفات‘‘ کا اظہاریہ۔ یہی وجہ ہے کہ میرا جی پر جو تھوڑی بہت تحریریں تنقید کے نام پر سامنے آئیں اُن میں بیشتر میرا جی کی شخصیت، لباس، حلیہ اور کچھ ’’خاص عادات‘‘کا بیانِ محض بن کر رہ گئیں جب کہ اُن کے فن اور تخلیقات پر سنجیدہ تنقیدی کاوشیں خال خال ہی نظرآئیں۔
اِس سال جب میرا جی کی سوویں سالگرہ آئی تو امید تھی کہ ہماری تنقید میرا جی کی طرف اپنی خاص اور سنجیدہ توجہ صرف کرے گی لیکن ناقدین نے اب بھی میرا جی سے ایسی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا کہ اسے انتہا درجہ کہ سرد مہری کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایسے میں جب حیدر قریشی نے ’’جدید ادب‘‘ کا ’’میرا جی نمبر‘‘ شائع کیا تو وہ کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوا۔ حیدر قریشی نے میرا جی پر ایسا ضخیم اور معیاری نمبر نکال کر اِس سال بھی اُردو ادیبوں کی قائم رہنے والی بے اعتنائی کا کسی حد تک مداوا کر دیا۔
اِس خصوصی اشاعت کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِس کے پیچھے حیدر قریشی کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی نظر آتی ہے کیوں کہ اِس اشاعت پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ میرا جی پر محض ایک خصوصی اشاعت اُن کا مقصد نہیں تھا بلکہ اُن کا مقصد میرا جی کو اُن کی تمام تر حیثیات کے ساتھ پیش کرنا تھا۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ حیدر قریشی اِس میں بہ احسن و خوبی کامیاب رہے ہیں۔
اپنی گفتگو (اداریہ) میں حیدر قریشی نے چند بہت اہم باتیں کی ہیں مثلاً؛ ’’میرا جی سے بہت سارے لکھنے والوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اکتساب کیا، فیض اُٹھایا لیکن عمومی طور پر غالباً اُن کی عوامی مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے، اُن کے اعتراف میں بخل سے کام لیا۔‘‘ اور یہ کہ ’’کسی شاعر اور ادیب کے مقام کا تعین اُس کی تخلیقات اور نگارشات کے ذریعے ہی کیا جانا چاہیے۔ اگر اِس میں مذہبی و مسلکی معاملات کو بنیاد بنا کر کسی تخلیق کار کا مقام طے کرنے کے منفی رویہ کو فروغ دیا جانے لگا تو اِس سے اُردو ادب میں طالبانی رویہ فروغ پائے گا جو ادب کے لیے کسی زہر سے کم نہیں۔‘‘ یا پھر یہ کہ ’’ہماری بد قسمتی ہے ہم لوگ اپنے معاشرے کے دوہرے معیار کے عین مطابق ظاہری اخلاقیات کے تحت آنے والے کسی عیب پر رُک کر رہ جاتے ہیں، اور پھر اِس تخلیق کار کا سارا ادبی کام پس پشت چلا جاتا ہے۔ میرا جی بڑی حد تک اِسی منفی رویے کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی حیدر قریشی نے چند اہم تنقیدی مسائل کی طرف محض اشارے کرنے کی بجائے انھیں بھر پور طریقے سے اُٹھایا ہے تاکہ وُہ تنقیدی دنیا میں مکالمہ پیدا کر سکیں۔
اِس کے بعد اِس خصوصی اشاعت میں ’’کوائفِ میرا جی‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی، ’’میرا جی کے بارے میں تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی کام‘‘ از ہانی السعید اور دو خطوط؛ ایک ن۔ م۔ راشد کا میرا جی کے نام اور ایک اخترالایمان کا میرا جی کے بارے میں رشید امجد کے نام خط شامل ہے۔
میرا جی کے فن پر تنقیدی مقالات کو چار مختلف حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پہلا حصّہ ’’میرا جی شناسی اور وزیر آغا‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں ڈاکٹر وزیر آغا کی میرا جی کی فکر اور فن پر مختلف اوقات میں لکھی گئی پانچ تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے۔ جس سے نہ صرف یہ کہ میرا جی کی مختلف فنی اور فکری جہات کا خوب احاطہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کی میرا جی کی شاعری مستقل ڈاکٹر وزیر آغا کے مطالعہ میں رہی ہے۔ اِن مضامین نے میرا جی شناسی میں کیا اہم کردار ادا کیا ہے اِس کے لیے اِن مضامین کے آخر میں طارق حبیب کا مفصل مضمون دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرا حصّہ ’’میرا جی کی شخصیت اور شاعری‘‘ کے عنوان سے ہے۔ لیکن یہاں ایسے مضامین پیش کیے گئے ہیں جن میں میرا جی کی اُسی لگی بندھی ’’شخصیت‘‘ سے بڑی حد تک گریز برتا گیا ہے جو اب تک ناقدین کا محبوب موضوع رہی ہے۔ اِن مضامین میں جیلانی کامران، ساقی فاروقی، مظفر حنفی اور عبداللہ جاوید کے مضامین بہت اہم کہے جا سکتے ہیں۔
تیسرے حصّے کو ’’میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے یعنی اِس حصّے میں میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ میرا جی کی تنقید پر سید وقار عظیم اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کے مضامین بلا شبہ خاصے کی چیز اور ترجمہ نگاری کے حوالے سے ’’میرا جی کا نگار خانہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہوامبشر احمد میر کا مضمون تحقیق کی بنیاد پر فراہم کردہ اہم معلومات کی وجہ سے قابلِ تعریف ہے۔
چوتھا حصّہ ’’میرا جی: نئے لکھنے والوں کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس کے عنوان سے واضح ہے کہ یہاں نئے لکھنے والوں کے میرا جی پر مضامین پیش کیے گئے ہیں۔ اِن نئے لکھنے والوں کے بارے میں حیدر قریشی اپنی گفتگو (اداریہ) میں لکھتے ہیں؛ ’’نئے مضامین کے حصول کے سلسلہ میں ایک خوش کُن پہلو یہ سامنے آیا کہ نئے لکھنے والوں نے اِس میں گہری دلچسپی لی۔ جو مضامین موصول ہوئے اُن میں سے بعض کمزور مضامین کو بھی تھوڑا بہت ایڈٹ کر کے شامل کر لیا گیا، مقصد یہ تھا کہ نئے لکھنے والے میرا جی کے مطالعہ میں دلچسپی لیں۔‘‘ حیدر قریشی کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوئی اور ہمیں یہاں بھی چند اہم مضامین پڑھنے کو ملے۔ خاص طور پر معید رشیدی کا ’’ابہام کی جمالیات: میرا جی‘‘، قاسم یعقوب کا ’’میرا جی کی نظموں کی چیستانی صورت حال‘‘، مستبشرہ ادیب کا ’’جنسی آسودگی کا خواہش مند شاعر: میرا جی‘‘، احتشام علی کا ’’میرا جی کی نظمیں: اپنے عہد کے تناظر میں‘‘ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کا ’’میرا جی کی غزل! ایک نئے لسانی پیرائے میں‘‘، شکیل کوکب کا ’’میرا جی کے گیت: ایک تعارف، ایک تجزیہ‘‘ اور سید اختر علی ’’میرا جی کی نظم ’سمندر کا بلاوا‘ اور اُس کے رنگ‘‘ خصوصی اہمیت کے حامل مضامین ہیں۔ اِن مضامین کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ نئے لکھنے والوں نے میرا جی کی نظم، گیت اور غزل؛ تینوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔
اِس کے بعد میرا جی کی شاعری کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ انیس (۱۹) گیت، تیرہ (۱۳) غزلیں اور اَسّی (۸۰) نظموں پر مشتمل یہ ایک بھر پور انتخاب ہے جس کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ حیدر قریشی نے ممکنہ حد تک میرا جی کی نمائندہ تخلیقات کا انتخاب کیا ہے اور اِس کے لیے انھیں کس قدر فکر و تامل سے کام لینا پڑا ہو گا اِس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اِس کے علاوہ میرا جی کی نثر (تنقید) کا بھی انتخاب شامل ہے گو اِس میں تشنگی کا کسی قدر احساس ہوتا ہے کیوں کہ یہاں میرا جی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ میں سے جن دو مضامین کو منتخب کیا گیا ہے اُن دونوں کا تعلق مغربی شاعروں سے ہے۔ کم سے کم اگر ایک مضمون کسی مشرقی شاعر کے حوالے سے بھی شامل کر لیا جاتا تو میرا جی کی نثری جہات کا احاطہ کافی حد تک ہو جاتا۔
’’میرا جی کو منظوم خراج عقیدت‘‘ ایک الگ حصّہ بنایا گیا ہے جس میں مختلف شعرا نے میراجی سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار، میرا جی پر نظمیں یا اُن کی زمین میں غزلیں لکھ کر کیا ہے۔ اِس کے بعد ایک بہت اہم حصّہ ’’مختلف زبانوں میں میرا جی کی نظموں کے تراجم‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اِس میں میرا جی کی چند اہم نظموں اور ایک گیت کے انگریزی، جرمن، روسی، ڈچ، اٹالین، عربی، ترکی اور فارسی جیسی آٹھ بڑی زبانوں میں تراجم شائع کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اِن تراجم کے معیار پر بات کرنا ممکن نہیں (کہ اِس کے لیے ان تمام زبانوں سے آگاہی ضروری ہے) مگر اتنا معلوم ضرور ہو جاتا ہے کہ ان بڑی زبانوں میں میرا جی کے کلام سے شغف کا عنصر موجود ہے۔
حیدر قریشی نے میرا جی پر انتظار حسین، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر امجد پرویز کے مختصر مگر جامع انگریزی مضامین بھی شامل کرنا ضروری خیال کیا جس سے اشاعت کے معیار کو یقیناًتقویت ملی ہے۔ آخر میں ’’انتظاریہ‘‘ کے ضمن میں شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون ’’میرا جی؛ سو برس کی عمر میں‘‘ شامل ہے۔ یہ مضمون اِس اشاعت کے لیے آخری لمحوں میں موصول ہوا۔ اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’میرا جی شناسی‘‘ میں یہ مضمون اہم ترین اضافہ ہے۔ اگرچہ مضمون اختصار کا شکار نظر آتا ہے (غالباً وقت کی کمی اس کی وجہ رہی ہو گی) بے شک ابھی اور تفصیل سے لکھے جانے کی گنجائش موجود تھی لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ کم وقت میں اختصار کے باوجود انھوں نے میرا جی سے ہر طرح معاملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر میرا جی کی نظم ’’بعد کی اڑان‘‘ کا تفصیلی تجزیہ خاصے کی چیز ہے۔ ایک بات شمس الرحمٰن فاروقی کی ضرور کھٹکی اور کوشش کے باوجود حلق سے نہیں اُتر سکی، لکھتے ہیں:
’’میں یہ بات کئی بار کَہہ اور لکھ چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ اقبال کے فوراً بعد آنے والے پانچ بڑے شعرا کی ترتیب میں میرا جی سب سے اوپر ہیں، پھر راشد، ان کے بعد اخترالایمان پھر مجید امجد اور سب سے بعد میں فیض ہیں۔‘‘
مسئلہ یہ نہیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے میرا جی کو ہی سرِفہرست کیوں رکھا کسی اور کو کیوں نہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شاعر کی عظمت کا قائل اسی صورت میں ہی ہُوا جا سکتا ہے جب اُسے دیگر بڑے شاعروں میں سرِفہرست رکھا جائے اور اُن بڑے شاعروں کو اُس کے سامنے چھوٹا ثابت کیا جائے؟ اور جو دو وجوہات میرا جی کو دیگر شعرا میں سرِفہرست رکھنے کی شمس الرحمٰن فاروقی نے بیان کی ہیں (تفصیل کے لیے مقالہ دیکھیے) کیا انھی وجوہات کی بنا پر ہی کوئی شاعر سرِفہرست ہوتا ہے؟ اور کیا دیگر شعرا کو سرِفہرست لانے کے لیے کچھ اور دلائل کام میں نہیں لائے جا سکتے؟ اور پھر سب سے اہم سوال یہ کہ ہم کب تک درجہ بندی کی بنیاد پر شاعروں کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتے رہیں گے۔ میرا جی کی عظمت اس بات میں ہے کہ اُن کی تخلیقات بڑی ہیں، اس لیے نہیں کہ راشد، مجید امجد، اخترالایمان اور فیض کی تخلیقات کم تر درجہ کی ہیں یا ان شعرا کے بڑا ہونے میں کوئی شک ہے۔ لہٰذا اس طرح کی ’’درجہ بندانہ تنقید‘‘ کا رواج اب ختم ہو جانا ہی بہتر ہے۔
بہر حال ’’جدید ادب‘‘ کا یہ ’’میرا جی نمبر‘‘ میرا جی شناسی میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہے گا اور اِس کا سارا کریڈٹ حیدر قریشی کو جاتا ہے جنھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اِس خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔
***
بشکریہ ادبی کتابی سلسلہ تناظر۔گجرات۔شمارہ نمبر ۲۔۲۰۱۳ء
بشکریہ ادبی کتابی سلسلہ تناظر۔گجرات۔شمارہ نمبر ۲۔۲۰۱۳ء
..............................................................................
جدید ادب اور میراجیؔ نمبر
*
از:سید اختر علی ....ناندیڑ،انڈیا
کسی زمانے میں ماہنامہ’’ایوانِ اردو‘‘ ،دہلی میں ماہیے پر مضامین پڑھے
تھے۔اس میں بار بار جناب حیدر قریشی ،جرمنی کانام بھی پڑھنے میں آتا تھا۔اس
وقت ذہن میں یہ بات تھی کہ جرمنی تو غیر اردو علاقہ ہے پھر وہاں سے یہ
آوازکس طرح گونج رہی ہے۔کون شخص ہے وہ جو اس علاقے سے اتنے لگاؤ سے اردو کی
خدمت کر رہا ہے۔بڑی حیرت ہوتی تھی۔پھر ایک عرصہ بیت گیا۔لیکن ماہیا اور اس
سے جڑی تحریک کارعب اب بھی میرے دل و دماغ کے کسی کونے میں باقی تھا۔مجھے
طبعیات،ریاضی اور اردو سے دلچسپی ہے۔نیٹ پر اردو کی سائٹس کی تلاش کے دوران
جناب خورشید اقبال صاحب کی ’’اردو دوست ڈاٹ کام‘‘سائٹ ہاتھ لگی۔یقین جانیے
نیٹ پر اس سائٹ کو دیکھ کر میری خوشی اورحیرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔حیرت اس
لیے ہوئی کہ میں یہ سمجھتاتھا کہ نیٹ پر اردو کے تعلق سے کوئی کام کیوں کر
ہوا ہوگا۔ اردو والے توعموماً مفاد پرست اور قدامت پسند ہیں۔پھر مجھے اپنا
خیال بدلنا پڑا۔مجھے خوشی ہوئی کہ اردو والے نہ تو مفاد پرست ہیں اور نہ ہی
قدامت پسند ۔ بلکہ وہ بھی زمانے کے ساتھ ہیں اور اپنا خوںِ جگر بالکل مفت
جلا رہے ہیں۔’’ارددوست ڈاٹ کام‘‘سے ہی میرا تعارف ’’جدید ادب ڈاٹ کام‘‘ سے
ہوا۔پھر جھٹکا لگا کہ اردو کا ایک مکمل،ضخیم اور معیاری رسالہ اور وہ بھی
بالکل مفت آن لائن اور کتابی شکل میں دستیاب ہے۔یہ ہے مختصر سا احوال
’’جدید ادب ‘‘،جرمنی سے شناخت کا۔
میراجیؔ کی سوّیں سال گرہ کے موقع پرجاری کیا گیا’’ جدید ادب ‘‘،جرمنی کا شمارہ نمبر۱۹(جولائی۔دسمبر2012)بحیثیت میراجی ؔ نمبر میرے پیشِ نظر ہے۔ رسالہ کے چھ سو صفحات میراجیؔ کے لیے وقف ہیں۔اس کی دستاویزی حیثیت کا اندازہ ان عنوانات سے ہوتا ہے: ۱)حیدر قریشی کی گفتگو،۲) میراجی ؔ کے کوائف،۳)میراجی ؔ پر تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی کام،۴)میراجیؔ شناسی اور وزیر آغا؛چھ مضامین ، ۵) میراجیؔ کی شخصیت اور شاعری ؛ سات مضامین،۶)میراجی ؔ کی تنقید اور ترجمہ نگاری ؛پانچ مضامین،۷)میراجیؔ :نئے لکھنے والوں کی نظر میں ؛چودہ مضامین،۸)میراجی ؔ کی شاعر ی کا انتخاب،۹)میراجی ؔ کے انیس گیت،۱۰)میراجیؔ کی تیرہ غزلیں،۱۱)میراجی کی اسّی نظمیں، ۱۲) میراجیؔ کی نثر کا انتخاب، ۱۳) میراجیؔ کو منظوم خراجِ عقیدت[۲۴غزلیں اور ۵ نظمیں]،۱۴)مختلف زبانوں میں میراجیؔ کی نظموں کے تراجم [جملہ آٹھ زبانیں:انگریزی،جرمن،روسی،ڈچ،اٹالین،عربی،ترکی،فارسی]،۱۵) انگریزی میں تین مضامین اور آخر میں۱۶) شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون:میراجیؔ :سو برس کی عمر میں۔
قطع نظر اس کے کہ حیدر قریشی کون ہیں کیا ہیں اور جرمنی میں کیوں ہیںآپ کی اردو زبان سے محبت قابلِ تحسین اور قابلِ قدر ہے ۔ اردو زبان کے تئیں آپ کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ویسے بھی اردو قوموں کی نہیں انسانوں کی زبان ہے۔روس کی اردو ادیبہ ڈاکٹر لڈ میلا وسؤیسوا نے جناب حیدر قریشی صاحب کے بارے میں لکھا کہ ’’مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پر حیرت بھی ہے اور صد رشک بھی۔سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ 24گھنٹوں کو 48گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں؟اگلی ملاقات ہوگی (انشاء اللہ ) تو آپ سے یہ منتر سیکھنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ روس کی مذکورہ مشہور و معروف ادیبہ کا یہ اعتراف حیدر قریشی صاحب کے بے لوث و ٹوٹ کر کام کرنے کی سند ہے۔
حید ر قریشی صاحب کی جمالیاتی حس غضب کی ہے۔میراجیؔ کی رنگا رنگ شخصیت کو ابھارنے کے لیے آپ نے میراجیؔ کا اتنا ہی دیدہ زیب اور رنگین سرِ ورق بنایا ہے۔اور میراجی ؔ کی شخصیت و فن کو رنگوں کی زبان میں بیان کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے۔ سرِ ورق پر دیا گیا میراجی ؔ کا شعر
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میںمیراجیؔ کی سوّیں سال گرہ کے موقع پرجاری کیا گیا’’ جدید ادب ‘‘،جرمنی کا شمارہ نمبر۱۹(جولائی۔دسمبر2012)بحیثیت میراجی ؔ نمبر میرے پیشِ نظر ہے۔ رسالہ کے چھ سو صفحات میراجیؔ کے لیے وقف ہیں۔اس کی دستاویزی حیثیت کا اندازہ ان عنوانات سے ہوتا ہے: ۱)حیدر قریشی کی گفتگو،۲) میراجی ؔ کے کوائف،۳)میراجی ؔ پر تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی کام،۴)میراجیؔ شناسی اور وزیر آغا؛چھ مضامین ، ۵) میراجیؔ کی شخصیت اور شاعری ؛ سات مضامین،۶)میراجی ؔ کی تنقید اور ترجمہ نگاری ؛پانچ مضامین،۷)میراجیؔ :نئے لکھنے والوں کی نظر میں ؛چودہ مضامین،۸)میراجی ؔ کی شاعر ی کا انتخاب،۹)میراجی ؔ کے انیس گیت،۱۰)میراجیؔ کی تیرہ غزلیں،۱۱)میراجی کی اسّی نظمیں، ۱۲) میراجیؔ کی نثر کا انتخاب، ۱۳) میراجیؔ کو منظوم خراجِ عقیدت[۲۴غزلیں اور ۵ نظمیں]،۱۴)مختلف زبانوں میں میراجیؔ کی نظموں کے تراجم [جملہ آٹھ زبانیں:انگریزی،جرمن،روسی،ڈچ،اٹالین،عربی،ترکی،فارسی]،۱۵) انگریزی میں تین مضامین اور آخر میں۱۶) شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون:میراجیؔ :سو برس کی عمر میں۔
قطع نظر اس کے کہ حیدر قریشی کون ہیں کیا ہیں اور جرمنی میں کیوں ہیںآپ کی اردو زبان سے محبت قابلِ تحسین اور قابلِ قدر ہے ۔ اردو زبان کے تئیں آپ کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ویسے بھی اردو قوموں کی نہیں انسانوں کی زبان ہے۔روس کی اردو ادیبہ ڈاکٹر لڈ میلا وسؤیسوا نے جناب حیدر قریشی صاحب کے بارے میں لکھا کہ ’’مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پر حیرت بھی ہے اور صد رشک بھی۔سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ 24گھنٹوں کو 48گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں؟اگلی ملاقات ہوگی (انشاء اللہ ) تو آپ سے یہ منتر سیکھنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ روس کی مذکورہ مشہور و معروف ادیبہ کا یہ اعتراف حیدر قریشی صاحب کے بے لوث و ٹوٹ کر کام کرنے کی سند ہے۔
حید ر قریشی صاحب کی جمالیاتی حس غضب کی ہے۔میراجیؔ کی رنگا رنگ شخصیت کو ابھارنے کے لیے آپ نے میراجیؔ کا اتنا ہی دیدہ زیب اور رنگین سرِ ورق بنایا ہے۔اور میراجی ؔ کی شخصیت و فن کو رنگوں کی زبان میں بیان کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے۔ سرِ ورق پر دیا گیا میراجی ؔ کا شعر
لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں
ان کی شخصیت کا صحیح ترجمان ہے۔اس محنت کے لیے بھی آپ کو داد دینے کے لیے جی چاہتا ۔
وطن سے دوری کا درد کسے نہیں ستاتا۔میراجی نےؔ تو سب کچھ تج دیا تھا۔پھر اسے یہ درد کیسے نہیں رلاتا۔اس نے ڈوب کر اور بہت ڈوب کر نظم ’’مجھے گھر یا دآتا ہے‘‘لکھی۔نظم کی ابتدایوں ہوتی ہے:
’’سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمین؟کہہ دو!وطن سے دوری کا درد کسے نہیں ستاتا۔میراجی نےؔ تو سب کچھ تج دیا تھا۔پھر اسے یہ درد کیسے نہیں رلاتا۔اس نے ڈوب کر اور بہت ڈوب کر نظم ’’مجھے گھر یا دآتا ہے‘‘لکھی۔نظم کی ابتدایوں ہوتی ہے:
یہ پھیلا آسمان اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا؟
ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں
کوئی دل سے پھسل جاتی کوئی سینہ میں چبھ جاتی
انہی باتوں کی لہروں پر بہا جاتا ہے یہ بجرا
جسے ساحل نہیں ملتا‘‘
نظم کا تیسرا حصہ ہے:
’’سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمین،کہہ دو!وہ کیسی مسکراہٹ تھی ،بہن کی مسکراہٹ تھی
میرا بھائی بھی ہنستا تھا
وہ ہنستا تھا،بہن ہنستی ہے اپنے دل میں کہتی ہے
یہ کیسی بات بھائی نے کہی،دیکھو
وہ امّاں اور ابّا کو ہنسی آئی
مگر یوں وقت بہتا ہے تماشا بن گیا ساحل
مجھے ساحل نہیں ملتا‘‘
اس نظم کا انتخاب بھی بہت معنی خیز ہے۔حیدر قریشی وطن سے دور جرمنی میں
سکونت پذیر ہیں۔انہیں بھی اپنے گھر کی یاد آتی ہوگی ۔ انہیں بھی وطن سے
دوری کا درد ستاتا ہوگا۔لہٰذا احقر کی نظر میںآپ نے میراجیؔ کی زبان میں
اپنے اسی درد کی عکاسی اس نظم کو سرِ ورق کے پیچھے دے کر کی ہے۔میراجی ؔ
کی یہ نظم وطن سے دورہر شخص کے دل کی آواز بن گئی ہے۔ اس نظم کی ٹیپ کی سطر
ہے ’ مجھے ساحل نہیں ملتا‘۔
میراجی ؔ پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن ہمیشہ ان کی متنازعہ شخصیت ابھر کر سامنے آئی اور ان کا فن پیچھے رہ گیا۔شمار ہ میں شامل متذکرہ بالا عنوانات کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نمبر میں ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس لحاظ سے یہ نمبر منفرد اور کافی اہم ہو گیا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے مرتب کردہ میراجیؔ کے کوائف اس نمبر میں شامل ہیں۔مصر کے ہانی السعید نے میراجیؔ پر ہوئے تحقیقی ،تنقیدی اور تخلیقی کام کا احوالِ واقعی پیش کیا ہے۔اس فہرست کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ میراجی ؔ پر سب سے زیادہ کام پاکستان میں ہوا۔ہندوستان میں کمار پاشی اور ساہتیہ اکادمی،دہلی نے آپ پر کتابیں شائع کیں اور ’شعر و حکمت‘ حیدر آباد،دکن(1) نے میراجی ؔ نمبر نکالا۔اور مغربی زبانوں میں بھی میراجیؔ پر کام ہو ا۔
خطوط کسی شخصیت کے مکان کی کھڑکیاں ہیں۔اس سے اس شخصیت کے مزاج اور فکر کا پتا چلتا ہے۔ شایداسی پیشِ نظر اس نمبر میں میراجیؔ کے نام ن.م.راشد کا خط اور میراجی ؔ کے بارے میں اخترالایمان کے خط کو فہرست میں اوّلیت کا مقام دیا گیا ہے۔ان خطوط سے میراجیؔ کی شخصیت اور فن کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں۔مثلاًمیراجیؔ کی مشرق و مغرب کے ادب پر گہری نظر تھی۔وہ مغرب کی نقالی کو پسند نہیں کرتے تھے۔میراجیؔ کی تنقیدی بصیرت بڑی روشن اور دو ٹوک تھی۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی ؔ شناسی کے ذیل میں بہت کام کیا ہے۔جناب طارق حبیب صاحب نے اپنے مضمون [’’میراجیؔ شناسی‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ]میں لکھا کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ نظیر اکبر آبادی،محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالیؔ ، اسمٰعیلؔ میرٹھی،چکبستؔ ،تلوک چند محرومؔ ،محمد اقبالؔ اور ن.م.راشدجیسے شعرا کے یہاں دھرتی سے وابستگی کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن دھرتی سے اٹوٹ اور جذباتی ہم آہنگی میراجی ؔ کے یہاں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی نظموں میں ہندو دیومالائی عناصر،اساطیر،بدھ مت اور وشنو مت کے ذکر کے ذریعہ اپنی روح کو دھرتی کی روح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔اسی لیے میراجیؔ کو دھرتی پوجا کا شاعر کہاگیا ہے۔
اس کے بعد میراجیؔ کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں اور ان کے فنِ شاعری و نثر نگاری پر مختلف ادیبوں نے بڑی عرق ریزی سے خامہ فرسائی کی ہے۔بعضوں نے ان کی تنقیدی بصیرت و حسّیت پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
جناب حیدر قریشی صاحب کی یہ بڑی کشادہ دلی ہے کہ آپ نے اپنے اس دستاویزی مجلّہ میں میراجیؔ پر لکھنے والے نئے قلمکاروں کو شامل کر کے ان کی ہمت افزائی کی ہے۔یعنی نئے چراغوں کی تازہ دم روشنی میں میراجیؔ شناسی کے نئے گوشوں کی جویائی کا کام آپ نے انجام دیا ہے۔یقیناًاس قابلِ قدر اقدام سے میراجیؔ فہمی کے ذیل میں نئے جہانوں کی سیاحی کا سالطف حاصل ہوگا۔اس باب کے تحت اس شمارہ میں جملہ چودہ(۱۴) مضامین شامل ہیں۔جس میں سے دو مضامین خود جناب حیدر قریشی صاحب کے ہیں۔یعنی جناب حیدر قریشی صاحب نے خود کو نئے لکھنے والوں کی فہرست میں رکھا ہے!!یہ بڑی حیرت میں ڈالنے والی بات ہے۔بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔یہ طرزِ عمل شرافت،سادگی،انکساری وغیرہ پر دال ہے۔جناب معید رشیدی صاحب نے اپنے طویل مضمون میں میراجیؔ کے ابہام کے سایوں کی جمالیاتی دھوپ چھاؤں کوبڑے خوبصورت انداز میں موئے قلم سے مصوّر کیا ہے۔آپ نے کہا کہ ابہام لفظ کے خمیر میں ہے اور یہ مانوس و ناموس کے درمیان کا ایک سلسلہ ہے۔لہٰذا اسی تناظر میں میراجی ؔ کو سمجھا جا سکتا ہے۔جناب قاسم یعقوب صاحب نے بھی میراجی ؔ کی نظموں کی چیستانی صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔آپ نے لکھا کہ ’میراجیؔ کو پڑھتے ہوئے شدید قسم کے فنّی ابہام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘(ص۱۸۶)۔اور آگے لکھا کہ’میراجی کو سمجھنے کے لیے ان کی نظموں کو نظم کے دائرے سے نکال کر گیت کے قریب لانا ہوگا۔ نظمِ میراجی کا سارا Textureگیت کی فضا کے قریب ہے۔وہ گیتوں میں اپنے اہداف کے بہت قریب کھڑے نظر آتے ہیں۔گیت ہی اصل میں ان کے فن کا اظہاریہ ہے۔‘(ص۱۹۳)۔محترمہ ہاجرہ بانو صاحبہ کے مضامین میں اردو زبان کی شیرینی کاسا لطف پایا جاتا ہے۔سید اختر علی(راقم الحروف)نے اپنے مضمون ’میراجیؔ کی نظم ’’سمندر کا بلاوا‘‘اور اس کے رنگ‘میں میراجیؔ کے لفظ اور معنی کے ستون پر ایستادہ خیالات کے پُل کو مجسّم کرنے کی کوشش کی ہے۔
میراجیؔ کی مقبولیت کا اندازہ ان کو پیش کیے گئے منظوم خراجِ عقیدت سے بھی ہوتا ہے۔شمارہ میں شامل چوبیس(۲۴) غزلیں اور پانچ(۵) نظمیں اس بات کی شاہد ہیں۔ان غزلوں میں سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:
ایک تھا جوگی سدھ بدھ اپنی رفتہ رفتہ بھول گیامیراجی ؔ پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن ہمیشہ ان کی متنازعہ شخصیت ابھر کر سامنے آئی اور ان کا فن پیچھے رہ گیا۔شمار ہ میں شامل متذکرہ بالا عنوانات کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نمبر میں ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس لحاظ سے یہ نمبر منفرد اور کافی اہم ہو گیا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے مرتب کردہ میراجیؔ کے کوائف اس نمبر میں شامل ہیں۔مصر کے ہانی السعید نے میراجیؔ پر ہوئے تحقیقی ،تنقیدی اور تخلیقی کام کا احوالِ واقعی پیش کیا ہے۔اس فہرست کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ میراجی ؔ پر سب سے زیادہ کام پاکستان میں ہوا۔ہندوستان میں کمار پاشی اور ساہتیہ اکادمی،دہلی نے آپ پر کتابیں شائع کیں اور ’شعر و حکمت‘ حیدر آباد،دکن(1) نے میراجی ؔ نمبر نکالا۔اور مغربی زبانوں میں بھی میراجیؔ پر کام ہو ا۔
خطوط کسی شخصیت کے مکان کی کھڑکیاں ہیں۔اس سے اس شخصیت کے مزاج اور فکر کا پتا چلتا ہے۔ شایداسی پیشِ نظر اس نمبر میں میراجیؔ کے نام ن.م.راشد کا خط اور میراجی ؔ کے بارے میں اخترالایمان کے خط کو فہرست میں اوّلیت کا مقام دیا گیا ہے۔ان خطوط سے میراجیؔ کی شخصیت اور فن کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں۔مثلاًمیراجیؔ کی مشرق و مغرب کے ادب پر گہری نظر تھی۔وہ مغرب کی نقالی کو پسند نہیں کرتے تھے۔میراجیؔ کی تنقیدی بصیرت بڑی روشن اور دو ٹوک تھی۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی ؔ شناسی کے ذیل میں بہت کام کیا ہے۔جناب طارق حبیب صاحب نے اپنے مضمون [’’میراجیؔ شناسی‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ]میں لکھا کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ نظیر اکبر آبادی،محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالیؔ ، اسمٰعیلؔ میرٹھی،چکبستؔ ،تلوک چند محرومؔ ،محمد اقبالؔ اور ن.م.راشدجیسے شعرا کے یہاں دھرتی سے وابستگی کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن دھرتی سے اٹوٹ اور جذباتی ہم آہنگی میراجی ؔ کے یہاں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی نظموں میں ہندو دیومالائی عناصر،اساطیر،بدھ مت اور وشنو مت کے ذکر کے ذریعہ اپنی روح کو دھرتی کی روح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔اسی لیے میراجیؔ کو دھرتی پوجا کا شاعر کہاگیا ہے۔
اس کے بعد میراجیؔ کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں اور ان کے فنِ شاعری و نثر نگاری پر مختلف ادیبوں نے بڑی عرق ریزی سے خامہ فرسائی کی ہے۔بعضوں نے ان کی تنقیدی بصیرت و حسّیت پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
جناب حیدر قریشی صاحب کی یہ بڑی کشادہ دلی ہے کہ آپ نے اپنے اس دستاویزی مجلّہ میں میراجیؔ پر لکھنے والے نئے قلمکاروں کو شامل کر کے ان کی ہمت افزائی کی ہے۔یعنی نئے چراغوں کی تازہ دم روشنی میں میراجیؔ شناسی کے نئے گوشوں کی جویائی کا کام آپ نے انجام دیا ہے۔یقیناًاس قابلِ قدر اقدام سے میراجیؔ فہمی کے ذیل میں نئے جہانوں کی سیاحی کا سالطف حاصل ہوگا۔اس باب کے تحت اس شمارہ میں جملہ چودہ(۱۴) مضامین شامل ہیں۔جس میں سے دو مضامین خود جناب حیدر قریشی صاحب کے ہیں۔یعنی جناب حیدر قریشی صاحب نے خود کو نئے لکھنے والوں کی فہرست میں رکھا ہے!!یہ بڑی حیرت میں ڈالنے والی بات ہے۔بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔یہ طرزِ عمل شرافت،سادگی،انکساری وغیرہ پر دال ہے۔جناب معید رشیدی صاحب نے اپنے طویل مضمون میں میراجیؔ کے ابہام کے سایوں کی جمالیاتی دھوپ چھاؤں کوبڑے خوبصورت انداز میں موئے قلم سے مصوّر کیا ہے۔آپ نے کہا کہ ابہام لفظ کے خمیر میں ہے اور یہ مانوس و ناموس کے درمیان کا ایک سلسلہ ہے۔لہٰذا اسی تناظر میں میراجی ؔ کو سمجھا جا سکتا ہے۔جناب قاسم یعقوب صاحب نے بھی میراجی ؔ کی نظموں کی چیستانی صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔آپ نے لکھا کہ ’میراجیؔ کو پڑھتے ہوئے شدید قسم کے فنّی ابہام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘(ص۱۸۶)۔اور آگے لکھا کہ’میراجی کو سمجھنے کے لیے ان کی نظموں کو نظم کے دائرے سے نکال کر گیت کے قریب لانا ہوگا۔ نظمِ میراجی کا سارا Textureگیت کی فضا کے قریب ہے۔وہ گیتوں میں اپنے اہداف کے بہت قریب کھڑے نظر آتے ہیں۔گیت ہی اصل میں ان کے فن کا اظہاریہ ہے۔‘(ص۱۹۳)۔محترمہ ہاجرہ بانو صاحبہ کے مضامین میں اردو زبان کی شیرینی کاسا لطف پایا جاتا ہے۔سید اختر علی(راقم الحروف)نے اپنے مضمون ’میراجیؔ کی نظم ’’سمندر کا بلاوا‘‘اور اس کے رنگ‘میں میراجیؔ کے لفظ اور معنی کے ستون پر ایستادہ خیالات کے پُل کو مجسّم کرنے کی کوشش کی ہے۔
میراجیؔ کی مقبولیت کا اندازہ ان کو پیش کیے گئے منظوم خراجِ عقیدت سے بھی ہوتا ہے۔شمارہ میں شامل چوبیس(۲۴) غزلیں اور پانچ(۵) نظمیں اس بات کی شاہد ہیں۔ان غزلوں میں سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:
عشق میں ایسا ڈوب گیا وہ نام ہی اپنا بھول گیا
میراجی کی غزلیں نظمیں ہیں برجستہ افضل جی
جب بھی پڑھنے بیٹھا ہوں میں اپنا لکھا بھول گیا
(افضل چوہان،ص۴۸۴)
مجھے حیدرؔ نے دکھائی یہ زمیں میراجیؔ
مرے اقبال میں اس کی بھی خطا شامل ہے
(ڈاکٹر ریاض اکبر،ص۴۸۰)
کچھ تو خبر لے ،نقشِ پا کا یونہی ساتھ نبھانے میں
کتنی سانسیں ٹوٹ چکی ہیں تیرے آنے جانے میں
(وسیم فرحت کارنجوی،ص۴۸۸)
شمارہ کے آخر میں ’’انتظاریہ‘‘کے تحت جناب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا
مضمون’’میراجیؔ :سو برس کی عمر میں‘‘ شامل ہے۔یہ مضمون میراجیؔ سے محبت
رکھنے والوں کے لیے واقعتاً ’انتظاریہ ‘ہی ہے۔کیونکہ اس مضمون میں میراجیؔ
کی شخصیت اور ان کے فن کے تعلق سے ان کے ہم عصر ادیب و شعرا ء و بعد کے
ادیب و شعراء کی آراء کا اجمالی یا تفصیلی ذکر آگیا ہے۔جناب شمس الرحمٰن
فاروقی صاحب نے لکھا کہ محمد حسن عسکری صاحب وہ واحد خاکہ نگار ہیں جنھوں
نے میراجیؔ کی شخصیت کے متنازعہ پہلوؤں سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کے فن کے
گوشوں کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہر حال اردو دنیا میں جدید ادب کا یہ شمارہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔اور
شمارہ کے بیک کَوَر کے اندر دیے گئے میراجیؔ کے ’گیت‘ کے آخری سطور
رات نئی،رات نئی،رات نئی اب آئے گی
چندر ماں کو ساتھ لائے گی
نور کی ندی بہہ نکلے گی ایسا رنگ جمائے گی۔
کے مصداق یہ شمارہ بھی خوب رنگ جمائے گااور اس سے نورِ ادب چہار سو پھیل جائے گا۔
.................................................
(1)......وضاحتی
نوٹ:
شعرو حکمت ۔حیدرآباد دکن نے میرا جی نمبر شائع نہیں کیا تھا۔میرا جی
کا گوشہ شائع کیا تھا۔بعض دیگر رسائل نے بھی میرا جی کے گوشے شائع کیے
تھے۔جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبر تاریخی اعتبار سے میرا جی پر کسی بھی
رسالہ کا شائع ہونے والا پہلا نمبر ہے۔سو سال میں پہلا میرا جی نمبر۔
.............................................