Dienstag, 6. November 2012

میرا جی صدی 1912 - 2012




REVIWES ON JADEED ADAB ISSUE 19
MEERA JI NUMBER


میرا جی صدی
  1912-2012
میرا جی صدی کے طور پرجدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر کی اشاعت کے بعد سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے میرا جی کی طرف توجہ کی جانے لگی ہے۔ہر چند مختلف ادیبوں کی ذاتی ترجیحات کسی نہ کسی رنگ میں ادبی معاملات پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں تاہم خوشی کی بات ہے ،لوگ باگ اپنے نجی نوعیت کے تحفظات اور تعصبات کے باوجود میرا جی کے بارے میں لکھنے کی طرف مائل ہیں۔جدید ادب کے میرا جی نمبر کے بعد اس پر تبصروں اور ردِ عمل کا سلسلہ جاری ہے،جسے تدریجاََ اسی جگہ پیش کیا جاتا رہے گا۔

  DAILY DAWN KARACHI
میرا جی کے بارے میں
پانچ ادیبوں اور نقادوں کے مضامین
ڈیلی ڈان کی ایک اشاعت میں میرا جی کے بارے میں پانچ مضامین ایک ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔یہ میرا جی کی ادبی خدمات کا اعتراف ہے۔
تاہم جدید ادب کے میراجی نمبر کے حوالے سے ان مضامین کا کوئی تعلق نہیں۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جولائی ۲۰۱۲ء میں جب جدید ادب کا میرا جی نمبر شائع ہوا تو ڈان کے کسی ادبی بندے کو بھی احساس ہوا کہ میرا جی صدی کے سال کے جاتے جاتے نومبر میں سہی،ان کا اتنا سا اعتراف تو کر لیا جانا چاہیے۔چونکہ میرا جی کی نسبت سے یہ مضامین شائع کئے گئے ہیں ،اس لیے انہیں بھی یہاں ڈان کے مذکورہ بندے کے شکریہ کے ساتھ دیاجا رہا ہے۔
 
.................................................   
جدیدادب کا میرا جی نمبر: ایک تاثر.......مدثر بلال.....لاہور
http://nla.gov.pk/november2012.php?p=27
.................................................  
جدید ادب (جرمنی) کا ’’میرا جی نمبر‘‘ 
ایک منفرد ادبی دستاویز.........عامر سہیل ...ایبٹ آباد
.................................................   
میراجی نمبر ۱۰۰؍ویں سال گرہ ۔ ۔۔ ایک جائزہ
(جدید ادب جرمنی شمارہ : ۱۹ www.jadeedadab.com)
ڈاکٹر محمد شفیع چوبدار.....شولاپور، انڈیا

http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=906 
.................................................  
 میرا جی… جنازہ کیسے اٹھا، سال کیسے منایا گیا
   انتظار حسین
.............................. 
  انتظار حسین کے کالم کے حوالے سے دو وضاحتیں
 حیدر قریشی
........................................
 .........................................

یہاں انگریزی کے معروف اخبار ڈیلی ڈان کراچی کا لنک پیش کیا جا رہا ہے۔ڈیلی ڈان کے 4 نومبر2012ء کے شمارہ میں پانچ ادیبوں اور نقادوں کے مضامین ایک ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔
DAILY DAWN KARACHI
4.11.2012
 ڈیلی ڈان کی ایک اشاعت میں میرا جی کے بارے میں پانچ مضامین ایک ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔یہ میرا جی کی ادبی خدمات کا اعتراف ہے۔
تاہم جدید ادب کے میراجی نمبر کے حوالے سے ان مضامین کا کوئی تعلق نہیں۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جولائی ۲۰۱۲ء میں جب جدید ادب کا میرا جی نمبر شائع ہوا تو ڈان کے کسی ادبی بندے کو بھی احساس ہوا کہ میرا جی صدی کے سال کے جاتے جاتے نومبر میں سہی،ان کا اتنا سا اعتراف تو کر لیا جانا چاہیے۔چونکہ میرا جی کی نسبت سے یہ مضامین شائع کئے گئے ہیں ،اس لیے انہیں بھی یہاں ڈان کے مذکورہ بندے کے شکریہ کے ساتھ دیاجا رہا ہے۔
.................................................................................................................................
 
جدید ادب کا میرا جی نمبر: ایک تاثر

مدثر بلال.....لاہور

 میرا جی بیسیویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ میرا جی کا شمار جدید اردو نظم کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ راشد فیض اور میرا جی معاصر شاعر ہیں اور ان کے سن ولادت میں معمولی سا فرق ہے لیکن میرا جی صرف ساڑھے سینتیس برس کی عمر میں اس مسافر خانے سے کوچ کر گئے لیکن ان چند سالوں میں میرا جی نےاردو ادب پر ان مٹ اثرات مرتسم کیے۔
 میرا جی جدید نظم کے نمایاں ترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کے نقاد، مترجم اور نثر نگار بھی تھے۔ میرا جی کے ہاں مغربی رجحانات کے ساتھ عصری اور سماجی شعوربھی پایا جاتا ہے۔انھوں نے حلقہ ارباب ذوق کے تحت جدید اردو نظم اور تنقیدکے لیے نئی راہوں کا تعین کیا۔ 
2012
 ء کو میرا جی کی صدسالہ جشن ولادت کی مناسبت سے میرا جی کے سال کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج شعبہ ار دو کے زیراہتمام مورخہ ۱۰ مئی ۲۰۱۲ء کو میرا جی کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے ایک روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے جرمنی سے جدید ادب کا میرا جی نمبر اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں نہ صرف میرا جی کی نظم و نثر پر اب تک ہونیوالے اہم کام کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے بلکہ میرا جی کی شاعری اور نثر کو معاصر عہد کے تناظر میں دیکھتے ہوئے نئے لکھنے والوں کی بھی ایسی بہت سی تحریریں شامل کی گئی ہیں جو تنقید کے جدید رجحانات کی روشنی میں میرا جی کی ادبی خدمات کو ایک نئے رنگ اور ڈھنگ سے آشکار کر رہی ہیں۔
آغاز میں میرا جی پر کی گئی حیدر قریشی کی گفتگو جدید اردو ادب سے ان کے تعلق خاطر اور میرا جی سے ذہنی و جذباتی وابستگی کی آئینہ دار ہے جس کی بدولت انہوں نے انتہائی محنت اور لگن سے اس شمارہ خاص کو ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے میرا جی صدی پر ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے۔ میرا جی شناسی کے حوالے سے اس اہم پیش رفت پر ان کا مطمح نظریہ ہے کہ جیسے جیسے میرا جی کو زیادہ پڑھا جائے گا ویسے ویسے اس عظیم شاعر کی تفہیم کے امکانات کھل کر سامنے آئیں گے۔
ابتدائی حصے میں میرا جی کے سوانحی خاکے کو ڈاکٹر جمیل جالبی جیسے اردو ادب کے بڑے محقق نے اپنے احاطہ تحریر میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جب کہ ہانی السعید نے میرا جی پر اب تک ہونیوالے تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی کام کا اجمالی جائزہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح ن۔ م۔ راشد اور اختر الایمان کے میرا جی کے بارے میں خطوط اس عظیم شاعر کے مقام و مرتبے کی صورت گری ان کے معاصر نظم گو شعراء کی نظر سے کرتے ہیں۔
شمارے کا پہلہ حصہ میرا جی کو بحوالہ وزیر آغا سمجھنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ میرا جی شناسی کے حوالے سے وزیر آغا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اور اس اعتبار سے انہیں اپنے دوسرے معاصر ناقدین پر تفوق حاصل ہے کہ انہوں نے میرا جی کی نظموں کو ایک نئے تناظر میں پرکھا ہے۔
جدید ادب کے اس شمارے میں میرا جی کو بحوالہ وزیر آغا سمجھنے کے لیے قاری کے لیے ان کے تمام مضامین کو یکجا کر دیا گیا ہے جو وزیر آغا نے مختلف ادوار میں لکھے اور میرا جی کو پڑھنے والوں کیلئے فکروفن کے نئے دریچے وا کیے۔ طارق حبیب نے میرا جی شناسی میں ڈاکٹر وزیر آغا کے حصے کی نشاندہی کی ہے۔
شمارے کے دوسرے حصے میں میرا جی کی شخصیت اور شاعری پرمضامین لکھے گئے ہیں۔ جیلانی کامران، ساقی فاروقی، مظفر حنفی، عبداللہ جاوید، مختار ظفر، احمد ہمیش اور توحید احمد جیسے ناقدین کے مضامین میرا جی کی شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات کو سامنے لاتے ہیں۔
ساقی فاروقی کے نزدیک میرا جی نے آدمی کے ان دکھتے ہوئے زخموں اور زنگ خوردہ جنسی جذبوں کی تطہیر کا فرض ادا کیا جنھیں ہمارے دوسرے شاعروں نے دانستہ نظر انداز کر رکھا تھا۔
تیسرے حصے میں میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری کے حوالے سے ناقدین کے مضامین شامل کیے گئے ہیں جنھوں نے میرا جی کی تنقیدی بصیرت کو اجاگر کیا ہے۔
جہاں سید وقار عظیم اور ڈاکٹر نذر خلیق نے میرا جی کی تنقیدی حیثیت متعین کرتے ہوئے ان کی تنقید میں مختلف پہلوؤں کی نشان دہی کی ہے وہاں معاصر تنقید کے اہم ترین نقاد ناصر عباس نیرّ کا مضمون یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس طرح میرا جی کی نظم نگاری کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اسی طرح جدید نظم کی تنقید کے ضمن میں بھی ان کی خدمات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے نزدیک میرا جی نے جدید اردو نظم کی اطلاقی تنقید کے اولین نمونے فراہم کیے۔ ان کے نزدیک میرا جی کی تنقید کا سرچشمہ مغرب ہے تاہم مغربی اثرات کے حوالے سے انھوں نے ایک نئی جہت اردو تنقید کو دی۔
نئے لکھنے والوں نے بھی میرا جی کو منفرد انداز میں سمجھا ہے اور اپنے مضامین کے ذریعے میرا جی کو معاصر تنقید کے نت نئے رجحانات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ نئے لکھنے والوں میں جہاں معید رشیدی میرا جی کی نظموں میں موجود ابہام کی مختلف صورتوں کو ایک نئے تناظر میں سامنے لایا ہے ۔ وہیں قاسم یعقوب نے میرا جی نظموں کی کرافٹ اور ان میں پائے جانیوالے ہیتی تنوعات کو نشان زد کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی نے مظفر حنفی کی طرح نہ صرف میرا جی کی غزل کو غزل میں ہونیوالے ابتدائی لسانی تجربات کا پیش خیمہ قرار دیا ہے بل کہ انہیں اردو میں ہونے والی ابتدائی لسانی تشکیلات کا محرک بھی بتایا ہے۔ اسی طرح احتشام علی نے میرا جی کی نظموں کے متن کو ان کے عہدکے سیاق کے حوالے سے پرکھا ہے اور ان کی ابہام زدہ نظموں کے متن میں موجود نیم روشنی اور کثیر المعنویت کو تنقید کے نت نئے رجحانات کی رو سے دیکھنے پر اصرار کیا ہے۔ مجموعی طور پر اس حصے میں نئے لکھنے والوں کی بھرپور شرکت اس بات کی غماز ہے کہ میرا جی آج کے عہد میں بھی اتنے ہی جدید اور نئے ہیں جتنے قریباً پون صدی قبل تھے۔
آخر میں دیا گیا میرا جی کی شاعری اور نثر کا انتخاب حیدر قریشی کے حسن انتخاب اور پختہ شعری ذوق کی دلالت کرتا ہے۔
علاوہ ازیں میرا جی کی نظموں کے مختلف زبانوں میں ہوئے تراجم میرا جی کی عالمی سطح پر ہونے والی پذیرائی کے عکاس ہیں۔ اس ضمن میں انگریزی، جرمنی، ڈچ اور اٹالین جیسی ترقی یافتہ یورپی زبانوں کے ساتھ روسی، ترکی، فارسی اور عربی جیسی عظیم مشرقی زبانوں میں ہونیوالے تراجم میرا جی کی شعری شناخت کو ایک نئے عالمی تناظر میں سامنے لاتے ہیں۔

(مطبوعہ ماہنامہ ’’اخبارِ اردو‘‘اسلام آباد۔نومبر ۲۰۱۲ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبرپر مدثر بلال لاہور کاتبصرہ ۔مطبوعہ ماہنامہ ’’اخبارِ اردو‘‘اسلام آباد۔
شمارہ نومبر ۲۰۱۲ء
  ڈائریکٹ لنک کے لیے کلک کریں۔

 ..................................................................................................


ادب نامہ ۔ادبی صفحہ مطبوعہ روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔مورخہ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء

جدید ادب (جرمنی) کا ’’میرا جی نمبر‘‘
ایک منفرد ادبی دستاویز


عامر سہیل ...ایبٹ آباد


ہمارے اُردو ادب میں اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے جو امریکہ،یورپ ، کینیڈا ،جاپان ،چین اور روس میں مستقل رہائش پذیر ہیں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق اُردو کے فروغ میں مقدور بھر کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں اسی قبیلے کی ایک فعال شخصیت کا نام حیدر قریشی ہے۔جو کئی برسوں سے جرمنی میں مقیم ہیں اور اگر اُن کی علمی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تنِ تنہا جتنا کام کیا ہمارے ہاں اتنا کام بڑے بڑے ادارے بھی نہیں کر رہے۔ بلا مبالغہ حیدر قریشی اُن خوش نصیب اُدبا میں شمار ہوتے ہیں جن پر ادب کی دیوی پوری طرح مہربان ہے اسی وجہ سے وہ ادب کی ا ہم اور متنوع تخلیقی اصناف مثلاً افسانہ،ماہیا،انشائیہ، غزل،آزاد نظم،شخصی خاکہ اورسفر نامہ نگاری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔اُن کی فکری جہات کا ایک مضبوط حوالہ تحقیق اور تنقید بھی ہے۔لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی،اس وقت انٹر نیٹ پر موجود دنیائے ادب کا خالص علمی ادبی اور تحقیقی جریدہ ’’جدید ادب‘‘ انہی کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔اس ادبی رسالے کے مندرجات اپنے معیار و وقار کے باعث تحقیقی کاموں میں بطور حوالہ جات استعمال ہو رہے ہیں۔حیدر قریشی کا تازہ ترین ادبی معرکہ یہ ہے کہ اُنہوں نے ’’جدید ادب‘‘ کا ضخیم ’’میرا جی نمبر‘‘ شائع کیا ہے،چھے سو(۶۰۰) صفحات پر مشتمل اس تاریخی نمبر میں ہر وہ چیز موجود ہے جو شائقینِ ادب پڑھنا چاہتے ہیں۔
’’جدید ادب‘‘ کا میرا جی نمبر دس حصوں میں منقسم ہے(۱) گفتگو(۲) میرا جی شناسی اور وزیر آغا(۳) میرا جی کی شخصیت اور شاعری(۴) میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری(۵) میرا جی،نئے لکھنے والوں کی نظر میں(۶) میرا جی کی شاعری کا انتخاب(۷) میراجی کی نثر کا انتخاب (۸) میرا جی کو منظوم خراجِ محبت (۹)مختلف زبانوں میں میرا جی کی نظموں کے تراجم(۱۰) انتظاریہ۔
حیدر قریشی کا کہنا ہے: ’’ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم لوگ اپنے معاشرے کے دوہرے معیار کے عین مطابق ظاہری اخلاقیات کے تحت آنے والے کسی عیب پر رُک کر رہ جاتے ہیں،اور پھر اُس تخلیق کار کا سارا ادبی کام پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ میرا جی بڑی حد تک اسی منفی رویے کا شکار ہوئے ہیں،رہی سہی کسر اُن دوستوں اور ’’کرم فرماؤں‘‘ نے پوری کردی جنہوں نے میرا جی کے فن پر توجہ دینے کی بجائے اُن کی شخصیت کو مزید افسانوی بنا دیا۔بے شک اُن کی شخصیت میں ایک انوکھی سحر انگیزی تھی،یاروں کی افسانہ طرازی نے میرا جی کے گرد ایسا ہالہ (جالا) بُن دیا کہ قاری اُن کی تخلیقات سے بالکل غافل ہو گیا۔میراجی کے دوستوں نے اس معاملے میں نادان دوستی کا اور’’ کرم فرماؤں‘‘ نے دشمنی کا
  کردار نبھایا ہے‘‘ ......جدید ادب،میرا جی نمبر،ص ۱۰
حیدر قریشی نے یہ بات کہہ کر فرضِ کفایہ ادا کیا ہے،ہمارے ہاں اکثر لکھنے والے اس منفی رویے کو مدت سے محسوس کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اظہار کرنے میں کوتاہی بھی ہوتی رہی ہے۔منٹو نے میرا جی کے ساتھ جو تین گولے باندھے تھے بعد میں آنے والے ناقدین انہی گولوں کے ساتھ کھیلتے رہے اور یہ نہ سوچا کہ میرا جی اصلاً ایک تخلیق کار ہے نہ کہ شعبدہ باز۔ میں میرا جی پر لکھی جانے والی بیشتر تنقیدی تحریروں کو خاکہ نگاری کی ذیل میں رکھتا ہوں۔ ماضی میں ہونے والی مدرّسی تنقیدکو اگر دیکھا جائے تو حیدر قریشی کے موجودہ’’ میرا جی نمبر‘‘ کی نوعیت تقلیدی نہیں بلکہ اجتہادی نظر آتی ہے۔قاری اس نمبر کے توسط سے اُس میرا جی سے ملتا ہے جس کی نظموں میں آفاقی بصیرت اور تنقید میں تفہیمی شعریات کے باریک نکتے چمک رہے ہیں۔اُردو ادب کے پرانے نقادوں نے میراجی کے فکرو فن پر جو دبیز پردے ڈالے تھے اُن کا ذکر بے سود ہے۔البتہ ہمارے جدید اور نئے نقادوں نے کم وقت میں اُس منفی تنقیدی اثر کو زائل کر دیا ہے جس نے میرا جی کواساطیری روایتوں میں زندہ دفن کر دیا تھا۔خوش کُن امر یہ ہے کہ اس ’’میرا جی نمبر‘‘ میں وہ تمام اہم نام موجود ہیں جو ہمیں میرا جی سے نزدیک کر تے ہیں، چند مقالہ نگاروں کے نام یہ ہیں:ناصر عباس نیر،ڈاکٹر نذر خلیق،ڈاکٹر رشید امجد،معید رشیدی،قاسم یعقوب،مستبشرہ ادیب،ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی، شہناز خانم عابدی،ہاجرہ بانو،سید وقار عظیم،احتشام علی،مبشر احمد میر اور
شکیل کوکب۔
’’میرا جی نمبر‘‘ کا لائقِ توجہ حصہ وہ ہے جس میں اس عظیم اُردو شاعر کی شاعری کے انگریزی،جرمن،روسی،ڈچ،اطالوی،عربی،ترکی اور فارسی تراجم پیش کیے گئے ہیں ۔مترجمین کی اس صف میں ایم اے آر حبیب،گیتا پاٹیل،ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ،ڈاکٹر لد میلا وسئیلیو یا، ناصر نظامی،ماسیموبون، ہانی السعید،ڈاکٹر خلیق طوق ار،زیاد کاؤسی نژاد،ڈاکٹر انجم ضیاء الدین تاجی،ڈاکٹر روف پاریکھ،انتظار حسین اورڈاکٹر امجد پرویز شامل ہیں۔
میرا جی کی شاعری پر شامل تراجم نے اس نمبر کی افادیت بڑھا دی ہے۔میں نے جب فارسی اور انگریزی تراجم کو اصل متن کی روشنی میں پڑھا تو خوشی ہوئی کہ مترجمین نے ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے،باقی زبانوں کے تراجم بھی یقیناًانہی صفات کے حامل ہو ں گے۔مترجمین کو اس بات کی اضافی داد ملنی چاہیے کہ اُنہوں نے جن نظموں کا انتخاب کیا وہ میرا جی کی نمایندہ نظمیں ہیں۔’’جدید ادب‘‘ بنیادی طور پر ایک بین الاقوامی ادبی جریدہ ہے لہذا اِن تراجم کی بدولت میرا جی کی  قرات کا دائرہ مزید وسیع ہو گا۔ میرا جی کی چالیس تخلیقات کا ترجمہ ایک رسالے میں آ جانا بذاتِ خود ایک بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے۔
اُردو ادب کے معدودے چند نقاد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے ادبی سفر کے مختلف مراحل میں میرا جی پر توجہ مرکوز رکھی اور اپنے سنجیدہ مطالعات میں میرا جی کی اصل اہمیت کو روشناس کرایا، اس قبیلے میں ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر رشید امجد سرِفہرست ہیں۔ حیدر قریشی چونکہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے اسی لیے’’ جدید ادب‘‘ میں اُنہوں نے ’ میرا جی شناسی اور وزیر آغا ‘ کا الگ عنوان قائم کیا اور اُن مقالات کو یکجا کردیا جو میرا جی کی راست تفہیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔اسی حصے میں طارق حبیب نے ’’ میرا جی شناسی میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ‘‘ جیسا معلومات افزا مضمون لکھا اور تمام اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی۔’’جدید ادب کا میرا جی نمبر‘‘ انٹر نیٹ کی ویب سائیٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے اس کے لیے
www.jadeedadab.com 
 تک جانا شرط ہے۔اسی سائیٹ پر ’’جدید ادب ‘‘ کے سابقہ شمارے بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ اس خاص نمبر کی کتابی صورت ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،۳۱۰۸،وکیل سٹریٹ،کوچہ پنڈت،لال کنواں،دہلی..انڈیا
سے حاصل کی جاسکتی ہے۔مزید تفصیلات اور جانکاری کے لیے haider_qureshi2000@yahoo.com 
  پر رابطہ کیجیے۔

ادب نامہ ۔ادبی صفحہ مطبوعہ روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔مورخہ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء
.......................
  مطبوعہ روزنامہ نادیہ ٹائمز دہلی۔۹؍نومبر۲۰۱۲ء
 ....................
مطبوعہ روزنامہ آج پشاور۔۳۰؍نومبر۲۰۱۲ء
............................................
براہ راست لنک روزنامہ آج پشاور

http://dailyaaj.com.pk/epaper/index.php?city=peshawar&page=29&date=2012-11-30
.............................................................
 
میراجی نمبر ۱۰۰؍ویں سال گرہ ۔ ۔۔ ایک جائزہ

(جدید ادب جرمنی شمارہ : ۱۹ www.jadeedadab.com)
ڈاکٹر محمد شفیع چوبدار.....شولاپور، انڈیا


http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=906
..........................................................
 
حیدر قریشی عصری اردو ادب میں نام اور مقام رکھتے ہیں۔ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان کی فعال اور متحرک ادبی شخصیت سے میں اس لئے بھی متاثر ہوں کہ انہوں نے کئی ادیبوں اور شاعروں کی ادبی سوچ کی رہنمائی بھی کی ہے اور پذیرائی بھی۔ اس کے علاوہ ان کی تخلیقی تحقیقی اور تنقیدی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ اردو ادب کو جدید ٹکنالوجی سے جوڑنے میں انہوں نے پہل کی ہے اور عالمی مسائل کو ادب میں جگہ دینے کی کوششوں میں بھی لگے رہتے ہیں۔ان کی سوچ اردو ادب کو تروتازہ ، تناور اوروقت کاہم قدم بنانے کی ہے۔ اس لئے انہوں نے ادبی صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ ’’جدید ادب ‘‘ ان کی فکری دنیا کا ترجما ن ہے۔ سرور اکادمی جرمنی کے زیر اہتمام بیک وقت کتابی صورت میں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے والا اردو کا یہ ادبی جریدہ برس ہا برس سے شائع ہو رہا ہے۔ ہر شمارہ خاص نمبر سے کم نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’جدید ادب ‘‘ میں کچھ ایسا بھی مواد ہوتا ہے جو کسی اور رسالے یا جریدے میں نہیں ہوتا۔ وقتاً فوقتاً اس کے خصوصی شمارے بھی شائع ہوتے ہیں۔ اس بار میراجی کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر حیدر قریشی نے ایک ضخیم نمبر شائع کر کے اپنے اعلیٰ ادبی ذوق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کا یہ قدم نام نہاد اردو کے ہمدردوں اور اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ یہ میراجی جیسی ادب ساز ، ادب نواز شخصیت کو بھولے ہوئے ہیں۔ شعری ادب میں نیا موڑلانے والے شاعر کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ حیدرقریشی قابل صد تحسین ہیں کہ انہوں نے ’’جدید ادب‘‘ کا میرا جی نمبر شائع کر کے میراجی کی اہمیت کو نہ صرف یاد دلایا بلکہ میراجی کا آموختہ کروا کے ازسرِ نو ان کے شعری سرمائے پرغور و فکر کر نے کی دعوت دی ہے۔ 
جدید ادب ‘‘کا یہ نمبر ۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر صفحہ میراجی کی شعر ی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔ ان کی افسانوی شخصیت کے رموز سے آشنا کراتا ہے۔ یہ سارا مواد حیدرقریشی کی تحقیق اور تلاش کا نتیجہ ہے۔ نمبر کے شروعات میں بعنوان ’’گفتگو‘‘ حیدرقریشی کے کچھ ابتدائی الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
’’میراجی ۲۵؍مئی میں پیدا ہوئے اور ۳؍نومبر ۱۹۴۹ ؁ء میں وفات پا گئے۔ تقریباً ۳۷ برس کی زندگی میں انہوں نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔ جدید نظم میں اپنے سب سے زیادہ اہم تخلیقی کردار کے ساتھ انہوں نے غزل اور گیت کی شعری دنیا پر بھی اپنے گہرے نقش ثبت کئے۔ شاعری کے کچھ ہلکے پھلکے دوسرے نمونے بھی پیش کیے۔ جو بظاہر ہلکے پھلکے لگتے ہیں۔ لیکن اردو شاعری پر ان کے بھی نمایاں نقش موجود ہیں۔دنیا کے مختلف خطوں کے اہم شاعروں کی شاعری کے منظوم ترجمے، نثری ترجمے، تنقیدی و تعارفی مضامین ایسے ایسے انوکھے کام کیے کہ اپنے تو اپنے ، غیر بھی ان کی تقلید کرتے دکھائی دیں۔ میراجی اپنی طبیعت کے لا اُبالی پن کے باعث اپنی بہت ساری شاعری کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ جتنا سرمایہ جمع ہو سکا،اس میں میراجی کی ذاتی کوشش سے کہیں زیادہ ان کے قریبی احباب اور بعض ناقدین و محققین کی نہایت مخلصانہ کاوشوں کو دخل رہا ہے۔‘‘
اس اقتباس سے میراجی کے شعری کردار اور شخصی لا اُبالی پن کی ہلکی سی جھلک سامنے آئی ہے۔ ’’گفتگو‘‘ میں حیدرقریشی نے میراجی کے متعلق اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ میراجی کے ہم عصر فیضؔ اور ن۔ م۔ راشدؔ کے متعلق بھی دل کو چھو لینے والی باتیں ہیں۔ اور یہ بھی کہ میراجی یکسر نظر انداز بھی نہیں کیے گئے۔ ان پرمضامین بھی لکھے گئے۔ یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے۔ لیکن ان پر کام ہنوز باقی ہے۔ حیدر قریشی نے اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ کچھ مطبوعہ مضامین اس نمبر میں کافی معیاری ہیں لیکن کچھ مضامین نئے قلم کاروں نے تحریر کیے ہیں جسے ایڈیٹ کر کے اس میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ نمبر دیگر میراجی گوشوں اور نمبروں کے مقابل میں کافی اہم ہو گیا ہے۔ حیدرقریشی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اکیسویں صدی کے قلم کاروں کے میرا جی کے متعلق تاثرات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ اس نمبر میں کوائف میراجی کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے مرتب کیا ہے۔ اس مضمون میں آپ نے میراجی کااصل نام، ولدیت ، قلمی و فرضی نام ، تعلیم ، لقب اور وہ ہند وپاک کے کن کن شہروں میں رہے۔ کیا کیا اور کہاں وفات پائی۔ سن اور مورخہ کے ساتھ ساری معلومات فراہم کی ہے۔ علاوہ ازیں ان کی تخلیقی فتوحات اور شاعری ، تنقید اور تراجم کی کتابوں کے نام اور مقام اشاعت وغیرہ بھی درج کیے ہیں۔ اسے مستند مانا جائے گا۔ ہانی السعید (مصر) نے میراجی کے متعلق تحقیقی تنقیدی اور تخلیقی کاموں کی فہرست پیش کی ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے پتہ چلا کہ رشید امجد نے ’’میراجی : شخصیت اور فن‘‘ عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے پی ۔ ایچ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی تھی اور میراجی پر ایم فِل اور ایم ۔ اے کے مفصل مقالے اردو کے علاوہ عربی میں بھی لکھے گئے ۔میرا جی پر ناول بھی لکھا گیا ۔ رسائل نے مختلف واقعات میں نمبر بھی شائع کیے۔ انگریزی زبان میں بھی ان پر کام ہوا۔
میراجی کے ہم عصر، ن۔ م۔راشد اوراخترالایمان نے بھی اعترافیہ مضامین لکھ کر میراجی کو داد دی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے میراجی پر کل پانچ مضامین اس نمبر میں شائع کیے گئے ہیں۔ جو میراجی کی شخصیت اور خاص طورپر فن کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ وزیرآغا کے یہ مضامین میراجی فہمی کے لئے کافی اہم ہیں۔ قاری اگر ان پانچوں مضامین کو پڑھ لے تو میرا جی کی شاعری کی اہمیت سے واقف ہو جائے گا۔ وزیر آغا کے ان مضامین کے بعد طارق حبیب کا ایک عمدہ مضمون ’’ میراجی شناسی میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ ‘‘پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مضامین پڑھنے کے بعد اس نمبر کا قاری دیگر مشاہیر ادب کے مضامین پڑھنے کے لیے بے چین ہو جاتاہے۔ اور جب وہ میراجی کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں پر جیلانی کامران ، ساقی فاروقی، منظر حنفی ، عبداللہ جاوید، مختار ظفر، احمد ہمیش اور توحید احمد جیسے مستند اور مقبول قلم کاروں کی تحریریں پڑھتا ہے تو میراجی کی ادبی شخصیت کے ہمہ رنگوں سے اسے واقفیت ہو جاتی ہے۔ ذہین قاری میراجی شناس ہو جاتاہے۔ یہ ترتیب حیدرقریشی کی صحافتی صلاحیت کا مظہر ہے کہ نمبر کا ایک ایک صفحہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔ اس کی دلچسپی برقرار رکھتاہے۔
’’میراجی کی تنقید اور ترجمہ نگاری‘‘ کے باب میں سید وقار عظیم ، ناصر عباس نیر ، ڈاکٹر نذرخلیق، رشید امجد ، مبشر احمد میر وغیرہ کے مضامین کے مطالعے سے میراجی کی تخلیقی صلاحیتوں کے علاوہ ان میں جو تنقیدی شعور تھا اور فنِ ترجمہ نگاری میں جو انہیں مہارت تھی اس کی جانکاری ملتی ہے۔
’’میراجی : نئے لکھنے والوں کی نظر میں‘‘ اس باب میں ۱۲؍قلم کاروں کے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ یہ سب آج کے لکھنے والے ہیں۔ ان مضامین کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی نظر میں میراجی کا فن کیا ہے؟ یہ اس فن کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ ان قلم کاروں میں کسی نے میراجی کے ابہام اور جمالیات پر لکھا ہے تو کسی نے ان کی نظموں کی چیستانی صورت حال پر اظہار خیال کیا ہے۔ کسی نے میرا جی کو جنسی آسودگی کا شاعر قرار دیا ہے۔ تو کسی نے ان کی نظموں کو ان کے عہد کے تناظر میں دیکھا اور گفتگو کی ہے۔ اسی باب میں حیدر قریشی نے اپنی بات کہنے کی راہ نکالی ہے۔ انہوں نے دومضامین ’’ترقی پسند نظم نمبراور میراجی ‘‘ اور ’’میراجی شخصیت اور فن ‘‘ لکھ کر حق ادا کر دیا۔ یہ باب بھی قاری کے لیے سودمند ہے کہ اس میں طرح طرح سے میراجی کی شاعری کے رُخ دکھائے گئے ہیں۔ اور سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
میرا جی کی شاعری کا انتخاب (۱۹گیت ، تیرہ غزلیں ، ۱۹ نظمیں) خوب تر ہیں۔ اس انتخاب سے میراجی کی شاعری کا ادبی کردار قاری کے سامنے آتا اور داد پاتاہے۔ اس نمبر میں میراجی کی نثر کا انتخاب بھی کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر چار مضامین شائع کئے گئے ہیں۔ میراجی کی نثر میں روانی ، بیباکی اور ادبی سچائی کی خوبو نظر آتی ہے۔ اگر یہ نثر لکھتے اور زیادہ لکھتے تو یقیناًادب کے سرمایے میں اضافہ ہوتا۔ ان مضامین کو پڑھ کر قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس باب میں ایّوب خاور کا ’’میرا جی کے حوالے سے ایک خط‘‘ بھی شائع کیا گیا ہے۔ جو میراجی کے فن کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔اگلے باب میں میراجی کو منظوم خراج عقیدت پیش کی گئی ہے۔ یہ آج کے شعراء کا کلام ہے۔ اس کی ابتداء میں حیدر قریشی نے چند سطور رقم کی ہیں۔
’’میراجی کے بارے میں چند شعرائے کرام نے نظمیں بھیجی ہیں۔ جبکہ بیشتر نے میراجی کی کسی غزل کی زمین میں غزل کہنا مناسب سمجھا ہے۔ دونوں صورتیں ہی اپنی جگہ اچھی ہیں۔ آج کے شعراء کا میراجی کی شاعری کی طرف متوجہ ہونا میراجی کے قریب آنے اور ان کی ادبی تفہیم کے لیے نیک فال ثابت ہوگا‘‘۔(جدید ادب ، میراجی نمبر ۔ ص ۴۷۴)
یہاں نمونتاً کچھ عصرِ حاضر کے شعراء کی غزلوں کے مطلعے میراجی کی طرح و ز مین میں درج کیے جاتے ہیں۔
بدلا بدلا ہے ہر منظر ، گلی محلہ بھول گیا
یاد رہا وہ لیکن اس کا چہرہ مہرہ بھول گیا
(ندافاضلی ، انڈیا)
لب کُشائی کی اجازت دلِ آزاد نہیں
ضبط شیوہ ترا، زیبا تجھے فریاد نہیں
(ڈاکٹر پنہاں ، امریکہ)
روز و شب کا حصار ہے اپنا
کس لیے انتظار ہے اپنا
(شاد اب احسانی ، کراچی)
وہ مری دم بخودی ہے یا ہوا قاتل ہے
اس نئے شہر میں تو رُکتا ہوا سا دل ہے
(ڈاکٹر ریاض اکبر، آسٹریلیا)
زیست اپنی خوب سے بھی خوب تر ہو جائے گی
کیا خبر تھی چشم تر بھی معتبر ہو جائے گی
(شکیل عادِل ، مُلتان)
اس باب میں ایوب خاور ، ڈاکٹر رضیہ اسماعیل ، فہیم انور ، شہباز نیر کی میراجی پر کہی ہوئی آزاد اور پابند نظمیں بھی شامل ہیں۔ آخر میں میراجی کی نظم ’’اجنتا کے غار‘‘ سے متاثر ہو کر حیدرقریشی نے ایک نظم ’’اجنتا کے غار کی ایک تصویر‘‘ لکھی ہے۔ یہ ساری نظمیں سلیقے اور محبت سے کہی گئی خوبصورت نظمیں ہیں۔
آخری باب ’’مختلف زبانوں میں میراجی کی نظموں کے تراجم ‘‘ ہے۔ اس باب میں انگریزی ، جرمن ، روسی ، ڈچ ، اٹالین، عربی ، ترکی اور فارسی زبانوں میں میراجی کی نظموں کے تراجم شائع کئے گئے ہیں۔ ’’انتظاریہ ‘‘ کے تحت شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون ’’میرا جی سوبرس کی عمر میں ‘‘ میراجی کے شعری ہُنر پر پُر مغز مضمون ہے۔ جو کہ میراجی کو خراجِ محبت بھی ہے اور ار دو کے سنجیدہ قاری کے لیے گرانقدر تحفہ بھی۔ ’’جدید ادب ‘‘ کا میراجی نمبر ایک ادبی دستاویر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نمبر’’میراجی شناسی ‘‘ کے نئے نئے در کھولتا ہے۔ اس نمبر نے میراجی کی صد سالہ سالگرہ پر ان کی عمر اور بڑھا دی ہے۔ قابل مبارکباد ہیں،حیدرقریشی کہ ان کے ہاتھوں یہ تاریخی اور دستاویزی کام انجام پایا۔ *****
مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۔۸؍نومبر ۲۰۱۲ء

http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=906
..............................................................

میرا جی… جنازہ کیسے اٹھا، سال کیسے منایا گیا

  انتظار حسین


ن م راشد کا سال، پھر فیض کا سال، پھر منٹو کا سال، تواتر کے ساتھ تینوں سال پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی شایان شان طریقے سے منائے گئے۔
منٹو کا سال ہنوز جاری ہے۔ بس اب آخری دموں پر ہے۔ نومبر کا مہینہ شروع ہے۔ آگے دسمبر ہے۔ راوی اس کے ساتھ منٹو کے سال کا تمت بالخیر لکھتا ہے۔
بس انھیں مہینوں میں کسی بھلے مانس کو اچانک خیال آیا کہ سنتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرا جی بھی تھا۔ اور اس کی پیدائش کا سو واں سال بھی اتفاق سے یہی 2012ہے۔ میرا جی کو بھی معمولی شے مت سمجھو۔ اردو شاعری میں جدیدیت کو صحیح معنوں میں متعارف کرانے والا اور نظم آزاد کو سب سے بڑھ کر قائم کرنے والا تو وہی ہے۔ کل اسی شہر لاہور میں میرا جی کے اثر میں شاعروں کا ایک پورا گروہ جدیدیت کے نام پر پروان چڑھا تھا۔ مختار صدیقی، قیوم نظر، یوسف ظفر، ضیاء جالندھری، مبارک احمد۔ اور ہاں اعجاز بٹالوی اور الطاف گوہر بھی اسی مکتبۂ فکر کے ہونہار فرزند تھے۔ حلقۂ ارباب ذوق اسی مکتبۂ فکر کی نمایندگی کرتا تھا۔ اور جب میرا جی اس دنیا سے سدھار گئے تو حلقہ کتنی باقاعدگی سے سال کے سال یوم میرا جی مناتا تھا اور میرا جی کے واسطے سے سال کے سال جے جے ونتی کا راگ کس پابندی سے ادیب سنا کرتے تھے۔ لیکن اس مکتبۂ فکر کے وہ شاعر ایک ایک کر کے سب دنیا سے سدھار چکے ہیں اور حلقہ بھی اب وہ حلقہ نہیں رہا ہے۔ وہ ہوتے تو میرا جی کے نام پر کچھ دال دلیا ہو جاتا۔
بہرحال نئے ادب کے نام لیوائوں کے حلقہ میں سے کسی کسی کو غیرت آئی اور اس نے میرا جی پر قلم اٹھایا۔ اچانک خبر ملی کہ لمز میں میرا جی کی یاد میں تقریب ہو رہی ہے۔ اس پر مبارک احمد کے فرزند ارجمند ایرج مبارک کی غیرت نے جوش کھایا اور وہ جو مہینے کے مہینے ان کی ادبی انجمن کا اجتماع کسمو پولیٹن کلب میں ہوتا ہے وہ اب کے ان کے والد مبارک احمد کے اولین گرو میرا جی سے منسوب کر دیا گیا۔ اگلے دن اتوار تھا۔ اور ہم نے دیکھا کہ ڈان (اخبار) نے اپنے ہفتہ وار ایڈیشن ’بُکس اینڈ آتھرز، کا اس ہفتے والا شمارہ، میرا جی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ اور اسی ہنگام جرمنی سے رسالہ ’جدید ادب‘ کا ایک ضخیم خصوصی نمبر موصول ہوا۔ یہ میرا جی نمبر تھا۔ حیدر قریشی نے اسے مرتب کیا ہے اور بڑی کاوش سے چیزیں جمع کی ہیں۔
تو لیجیے آخر کے تئیں میرا جی کا سال بھی لشتم پشتم منا ہی لیا گیا۔ یہ بھی بہت غنیمت ہے۔ میرا جی کا بمبئی شہر میں انتقال ہوا تھا۔ شہر میں جہاں اس زمانے میں اردو کے ادیبوں کی بہت یلغار تھی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا تو وہ ہیڈکوارٹر تھا وہاں میرا جی کے جنازے پر صرف پانچ آدمی تھے۔ اختر الایمان، مہندر ناتھ، مدھو سودن، اختر الایمان کے ہم زلف آنند بھوشن اور فلم ڈائریکٹر نجم نقوی۔ اس لحاظ سے میرا جی کے سال کا یہ نقشہ بہت اطمینان بخش ہے۔
ہاں لیجیے ہم میرا جی سال کی اختتامی تقریب کو تو بھول ہی چلے تھے۔ وہ بھی سن لیجیے۔ انھی برسوں میں فرانس کا ایک نوجوان دانشور ژولیاں وارد ہوا۔ ریڈ کراس سے وابستہ تھا۔ اس کے سارے لچھن وہی تھی جو فرانس کے دانشوروں اور شاعروں سے منسوب چلے آتے ہیں۔ اسے اِس دیس کی زبانوں اور ادبیات سے کچھ زیادہ ہی شغف ہو گیا۔ میرا جی مخصوص طور پر اس کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان کی شخصیت اور شاعری کو سونگھ کر وہ چونکا کہ یہاں سے تو کچھ اپنے شاعرِ اعظم بادلیئر کی مہک آ رہی ہے۔ اس نے میرا جی کی ذات کو مرکز بنا کر اردو میں ایک ناول لکھ ڈالا۔
ہم نے وہ ناول پڑھا اور اس سے کہا کہ برادر یہ ناول فرانسیسی رنگ ڈھنگ کا ہے جو اردو میں لکھا گیا ہے۔ میرا جی اس ناول کا مستحق تھا۔ اس نے بھی تو فرانس کے زوال پسند، شعری اسکول سے خاص طور پر بادیلیئر سے بہت رس اور چس حاصل کیا تھا۔ وہی بادیلیئر جس کا ذکر ہمارے ترقی پسند دانشور کس حقارت سے کیا کرتے تھے کہ وہ فرانس کا بیمار ذہن آتشک زدہ شاعر بادیلیئر۔ ہمارا یار عزیز مظفر علی سید اس بیماری کو فرانسیسی بیماری بتاتا تھا۔ اس عنوان سے اس نے ایک کہانی بھی لکھنی شروع کی تھی۔ مگر اس کے دوسرے کاموں کی طرح یہ کہانی بھی ادھوری رہ گئی۔ میرا جی نے اپنی جان پر کھیل کر اس کہانی کو مکمل کیا۔ پھر بمبئی میں تو اس پر دن بھاری ہی گزرنے تھے۔
میرا جی کے بمبئی جانے کی تقریب کیسے نکلی، یہ بھی سن لیجیے۔ میرا جی کی دھوم تو لاہور سے شروع ہوئی تھی۔ مولانا صلاح الدین احمد کے رسالہ ’ادبی دنیا‘ کو انھوں نے اپنی ادبی رزم گاہ بنایا ہوا تھا۔ مگر ادھر دلی میں پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بنے بیٹھے تھے۔ اردو کے ادیبوں کو تخصیص کے ساتھ نوازا جا رہا تھا۔ اور لاہور کے ادیبوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ بس جیسے کسی بھلے وقت میں دلی کا ہر شاعر لکھنؤ کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا اسی طرح اب لاہور کا ہر ہونہار ادیب دلی کی طرف لپک رہا تھا۔ میرا جی بھی دلی کی طرف چل پڑے۔
خیر وہاں تو اس وقت ہر رنگ کا ادیب جمع تھا۔ میرا جی کو آسانی سے قدر دان میسر آ گئے۔ مگر جب ایک اور رو آئی اور ادیبوں نے فلموں کی چکا چوند میں دلی سے بمبئی کی طرف زقند لگائی تو میرا جی نے بھی پھر ادھر ہی کا رخ کیا۔
بمبئی میں میرا جی کا آغاز تو ایسا برا نہیں تھا۔ اختر الایمان جیسا بھلا مانس رفیق انھیں میسرآ گیا۔ ایک رسالہ ’خیال‘ کے نام سے نکالا۔ اختر الایمان ان کے شریک کار تھے۔ میرا جی کے قلم کی جولانیوں نے ’خیال‘ کو کیا سے کیا بنا دیا۔ مگر تابکے۔ پٹری سے اتری اس ذہین و فطین شخصیت نے کیا کیا روگ پال رکھے تھے۔ جب امراض نے زور پکڑا تو اختر الایمان انھیں اپنے گھر لے آئے۔ اس کی ساری تفصیل اختر الایمان نے اس خط میں لکھی ہے جو انھوں نے رشید امجد کے نام لکھا تھا اور جو اب حیدر قریشی کے مرتب کردہ میرا جی نمبر میں شایع ہوا ہے۔
میرا جی کی حالت بگڑتی ہی چلی گئی۔ جب حالت زیادہ دگرگوں ہوئی تو انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اسپتال میں ان سے ایک ملاقات اعجاز بٹالوی نے کی تھی۔ اس کا احوال بھی سن لیجیے۔ لندن جاتے ہوئے بمبئی میں پڑائو کیا۔ میرا جی سے ملنے اسپتال گئے تو کیا دیکھا۔
’’میرا جی کے پلنگ کے ساتھ دوسرے مریض کو الگ کرنے کے لیے ایک اسکرین لگا دی گئی تھی۔ میں نے دیکھا، میرا جی کچھ پریشان ہیں۔ اتنے میں اسکرین کی دوسری طرف سے ایک دلدوز چیخ بلند ہوئی۔ میرا جی کا ہمسایہ دنیا سے جا چکا تھا۔ میرا جی نے مجھ سے کہا ’’وہ میری مالا اٹھا دیجیے میں عبادت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
انھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور ان کی مالا کے منکے ان کی انگلیوں سے پھسلنے لگے۔ چند منٹ کے بعد انھوں نے آنکھیں کھولیں اور مالا کو ایک ’’طرف رکھ دیا۔‘‘
دوسرا منظر جو انھوں نے دیکھا وہ یوں ہے کہ ایک پادری دوسرے مریضوں سے گزر کر میرا جی کے پاس آن پہنچا ’’اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت ڈوری تھی جس کے سرے پر مر مر کا بنا ہوا مسیح مصلوب کا ایک خوبصورت مجسمہ لٹک رہا تھا۔ اس نے قریب ہو کر میرا جی کے سامنے یہ مجسمہ لہرایا۔ میرا جی نے کہا ’’ان کو میں ہمیشہ سے جانتا ہوں۔ مگر آپ سے ملاقات نہیں۔‘‘
پادری نے کہا ’’آپ یسوع کی برکت سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ میرا جی بولے ’’آپ جب پچھلے ہفتے یہاں آئے تھے تو آپ نے میرے سامنے والے مریض سے یہی کہا تھا۔ وہ آج ٹھیک ہو گیا ہے۔‘‘
پادری صاحب کچھ پریشان ہوئے۔ مسکرا کر میرا جی کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’آپ اسپتال میں کب سے ہیں۔‘‘
جواب دیا ’’روز ازل سے یہیں ہوں۔‘‘
اعجاز بٹالوی کی اس ملاقات کے تھوڑے ہی دن بعد میرا جی آخر جان ہار گئے۔ اب اختر الایمان کی سنیے ’’میرا جی اپنے زمانے کا بڑا نام تھا۔ میں نے بمبئی کے تمام ادیبوں کو اطلاع بھجوائی۔ اخبار میں بھی چھپوایا۔ مگر کوئی ادیب نہیں آیا۔ جنازے کے ساتھ صرف پانچ آدمی تھے۔‘‘ وہی جن کا ذکر اوپر آیا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
ایسے پراگندہ خاطر پراگندہ دل کا جنازہ ایسے ہی اٹھنا تھا اور سال بھی اسی رنگ سے منایا جانا تھا۔

مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس،لاہور

9.11.2012  


................................................................

انتظار حسین کے کالم کے حوالے سے دو وضاحتیں
  انتظار حسین کے اس کالم کے حوالے سے دو وضاحتیں
 کرناضروری ہیں۔

’’جدید ادب‘‘کا میرا جی نمبرجولائی ۲۰۱۲ء میں چھپ گیا تھا اور اگست،ستمبر تک پاکستان کے احباب تک پہنچ چکا تھا۔انتظار حسین کو بھی تب ہی رسالہ مل چکا تھا۔اب اس کالم میں انہوں نے ڈیلی ڈان 4 نومبر2012ء  میں پانچ مضامین کے ایک ساتھ چھپنے کو اولیت دی ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کام پہلے ہوا ہے اور جدید ادب کا میرا جی نمبر بعد میں آیا ہے۔ افسوس دانستہ یا نادانستہ دیا گیا یہ تاثر خلافِ واقعہ ہے۔جدید ادب کے میرا جی نمبر کے اعتراف میں کسی کو انقباض ہے تو ویسے ہی اسے نظر انداز کر دیں لیکن حقائق کو مسخ نہ کریں۔
........................
میرا جی کی موت کا انتظار حسین جیسے بظاہر مرنجاں مرنج ادیب نے جس طرح ذکر کیا ہے،یہ بھی ان کے عمومی مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔میرا جی کی تدفین پر زیادہ لوگوں کا نہ آنا محض اس وجہ سے تھا کہ تقسیم بر صغیر کے معاََبعد کا زمانہ تھا،میرا جی کو پاکستانی مان کر اور بھارت کی تب کی دہشت زدہ سیاسی فضا کی وجہ سے لوگوں نے آخری رسومات میں شرکت سے گریز کیا۔اس بات کو اچھے پیرائے میں بیان کیا جا سکتا تھا۔تاہم اگر اسی حوالے سے ن م راشد اور مجید امجد کا ذکر کیا جائے تو کیا انتظار حسین اتنی ہی بے حسی اور سفاکی کے ساتھ ان کے انجام کا ذکر کریں گے؟
ن م راشد کی میت کو جلایا گیا،کیا انتظار حسین اسے کریا کرم کہیں گے؟۔۔۔اسی طرح مجید امجد کی لاش کو گندگی کے ٹرک پر ڈال کر ان کے گاؤں بھیجا گیا۔کیا اس بے رحمی کا اتنا ہی مزہ لے کر ذکر کریں گے جس طرح انہوں نے میرا جی کی موت کا ذکر کیا ہے،جبکہ میرا جی کی آخری رسومات ان ظاہری باتوں کے حوالے سے راشد اور مجید امجد کے مقابلہ میں کہیں بہتر طور پرادا ہوئیں۔یہاں مقصد راشد یا مجید امجدکی ا موات اوران کے ساتھ روا رکھے جانے والے آخری سلوک پر بحث کرنا نہیں ہے،یہ ہمارے معاشرے کی بہت ساری مکروہات کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔مقصد صرف اتنا ہے کہ میرا جی کی موت کو اتنی سفاکی سے بیان نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر انتظار حسین جیسے تہذیب کے نمائندہ ادیب بھی اپنی برادری کے اہم لوگوں کا اس طرح ذکر کرنے لگے تو پھر اپنی موجودہ تہذیب کی حالتِ زار کا رونا کیسا؟

حیدر قریشی

...............................................................

1 Kommentar: