Dienstag, 27. November 2012

ظفر اقبال کے جواب میں :عابد خورشید

ظفر اقبال کے جواب میں :عابد خورشید

یہ مکتوب نما مضمون عابد خورشیدنے بھیجا ہے۔ظفر اقبال کے دو نازیبا کالموں کے جواب میں اس مضمون میں بعض اہم ادبی معاملات پر علمی انداز میں بات کی گئی ہے۔چونکہ ان ساری باتوں کا ذکر میرا جی کے حوالے سے ہی آیا ہے،اس لیے اس خط کو جناب عابد خورشیدکے شکریہ کے ساتھ یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔اس سلسلہ میں کوئی مزید پیش رفت ہوئی تو وہ ریکارڈ بھی یہاں شامل کر لیا جائے گا۔
............................................................

عابد خورشیدؔ
................
محترمی و مکرمی
انچارج اَدبی صفحہ روزنامہ ’’دُنیا‘‘ لاہور
السلام علیکم !
دُنیائے صحافت کے فلک پر نمودار ہونے والے ایک روشن ستارے روزنامہ ’’دُنیا‘‘ میں ظفر اقبال صاحب نے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔موصوف اپنے کالم کے ذریعے متعصبانہ خیالات کا کھل کر اظہار فرماتے ہیں‘ جب کہ کالم نگاری کا بنیادی مقصد سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی ‘ مذہبی یا اخلاقی موضوعات پر اظہار رائے کرنا ہوتا ہے‘ تاکہ ایک متوازن نقطۂ نظر قارئین کے سامنے پیش کیا جا سکے‘جب کہ ظفر اقبال صاحب اپنے کالموں میں اَدبی شخصیات پر حملہ زن ہونے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ مثلاً اُنھوں نے ۱۷ ستمبر ۲۰۱۲ء کے کالم بعنوان ’’میراجی ایک مٹتی ہوئی تصویر‘‘ میں نظم کے صفِ اول کے شاعر کے متعلق توہین آمیز کلمات لکھے ہیں۔فرماتے ہیں:
’’اُس کی غزلیں ہرگز متاثر نہیں کرتیں‘ گیت بھی بس یوں سمجھے گزارہ ہی ہیں‘‘
’’چنانچہ میراجی کا بنیادی حوالہ اگر شاعری ہے تو نہ وہ متاثر کرتا ہے‘ نہ مائل‘‘
لگے ہاتھوں وہ دیگر مشاہیر اَدب کے بارے میں یوں فتوے صادر فرماتے ہیں :
’’یگانہ چنگیزی ایک معمولی درجے کا شاعر تھا‘‘
’’ڈاکٹر وزیرآغا اور احمد ندیم قاسمی کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اُنھوں نے شاعری محض اوڑھی ہوئی تھی‘‘
’’مجید امجد اور ن‘ م‘ راشد کی نظموں میں وہ گھلاوٹ ‘ اثرپذیری اور ازدل خیز دبردل ریز والی کیفیت نہیں ہے‘‘
اِسی کالم کی دوسری قسط میں جناب ظفراقبال کا انداز ملاحظہ فرمائیں:
’’میراجی تو محض میٹرک فیل آدمی تھا‘‘
’’]تنقید[ ایک غیر ضروری صنف ہے اور جن کے بارے میں بات عام ہے کہ ہر بگڑا ادیب نقاد بن جاتا ہے‘‘
’’اَدب کے ساتھ معمولی ربط ضبط رکھنے والا کوئی بھی شخص نقاد ہو سکتا ہے‘‘
یہ صحافت کی کون سی قسم ہے‘ جس میں محترم کالم نگار جو جی میں آئے لکھ دیں اور اُسے شائع بھی کر دیا جائے۔ساتھ ہی اُردو اَدب کی ایک مقتدر اَدبی شخصیت ڈاکٹر وزیرآغا کا محاسبہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔اس محاسبے کا محرک میراجی پر تحریر کردہ ڈاکٹر وزیرآغا کے وہ پانچ مضامین ہیں جو سہ ماہی ’’جدید اَدب‘‘ جرمنی(مدیر : حیدر قریشی) کے ’’میراجی نمبر‘‘ میں بڑے التزام سے شائع ہوئے ہیں۔ ظفر اقبال صاحب نے ان پانچوں مضامین کو تختۂ مشق بنا کر دراصل اپنے اندر کی وہ بھڑاس نکالی ہے جو ڈاکٹر وزیرآغا کے فقید المثال علمی و اَدبی کام کو دیکھ کر جلاپے کی صورت میں اُنھیں ہمہ وقت بے چین کیے رکھتی ہے۔ مذکورہ کالم میں ایک جگہ کچھ یوں فرماتے ہیں:
’’میراجی کی شاعری پر وزیرآغا کے پانچ مضامین شامل ہیں۔شاعری ڈل اور بے جان ہو تو تنقید بھی شگفتہ اور قابل مطالعہ نہیں ہو سکتی‘‘
کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ’’شگفتہ تنقید‘‘ کی وضاحت بھی فرمادیتے! ممکن ہے ‘ وہ اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکے ہوں کہ اُن کی کالم نگاری ’’شگفتہ تنقید‘‘ کے معیار قائم کرنے کے لیے کافی ہے۔
خیر !یہ تو جملہ معترضہ تھا ‘ ظفر اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ آغاصاحب نے شاعری کو اپنے اوپر محض اوڑھ رکھا تھا اور یہی صورت حال احمد ندیم قاسمی کی بھی تھی۔ ہم یہاں یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ اگر اِن دونوں قابلِ احترام شخصیات نے شاعری کو خود پر اُوڑھ رکھا تھا تو کیا ظفراقبال صاحب نے شاعری کو نیچے زیب تن کیا ہوا ہے !مقام حیرت ہے کہ اسّی سال کی عمر کے پیٹے میں داخل ہو جانے کے باوجود ظفر اقبال صاحب کی زبان اور قلم کی تلخی اور تندی میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اُن کی تلخ نوائی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
ماہنامہ ’’الحمرا‘‘ لاہور ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں غلام نبی اعوان نے ظفر اقبال صاحب کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیے:
’’میرے محترم ظفر اقبال صاحب ان پھاوڑہ بازوں کی دوسری پیڑی سے ہیں۔ میں نے شروع میں ظفر اقبال صاحب کو پڑھنے کی کوشش کی لیکن اُن کی لفظی گتکے بازیوں سے میرے ذوق مطالعہ کو ایسا جھٹکا لگا کہ میں نے ان کی غزل پڑھنا چھوڑ دی ۔غزل پڑھتے ہوئے یوں لگا کہ میں کہیں لکڑیوں کے ٹال میں گھس آیا۔ جمال فکر و خیال سے کوری لفظوں کی ہیراپھیری ..... میں ایک عامی شخص ہوں اور ظفر اقبال کی اس قبیح تجربہ کاری پر اپنی علمی کم مائیگی کی وجہ سے دم سادھے ہوں۔ (الحمرا‘ لاہور‘ ص۱۳۷۔۱۳۶)
دوسری طرف ’’الحمرا‘‘ اگست ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شامل ظفر اقبال کی ’’حمد‘‘ کے بارے میں پروفیسر جمیل آذر صاحب یوں رقم طراز ہیں:
’’اِس شمارے کا سب سے تکلیف دہ کلام جناب ظفر اقبال کی تحریر کردہ ’’حمد‘‘ ہے۔ یہ حمدیہ کلام کے زمرے میں تو قطعاً نہیں۔ان کے کلام میں گستاخی اور بے اَدبی کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ اور وہ حدِ اعتدال سے گزر گئے ہیں..... ظفر اقبال صاحب سے گزارش ہے کہ وہ توبہ استغفار کریں کیونکہ میری طرح وہ بھی عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں رب العزت کی دل سے حمد و ثنا کی ضرورت ہے۔‘ ‘ (الحمرا‘ لاہور‘ ص۱۳۵)
اسی طرح‘ ’’الحمرا‘ لاہور ‘ اکتوبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں سید معراج جامی لکھتے ہیں:
’’ظفر اقبال صاحب کی حمد پڑھی۔اب ظفر اقبال صاحب اس مقام پر ہیں جہاں وہ ہر طرح کی تنقید و تجزیے سے گزر چکے ہیں۔ جہاں ساری دوا اور دعا ناکام ہو جاتی ہے ‘ بس تذکرہ ہی تذکرہ رہ جاتا ہے۔ (الحمرا‘ لاہور‘ ص ۱۳۹)
حمدیہ کلام میں تجربہ کاری کے نام پر ظفر اقبال صاحب کے متعارف کردہ گستاخانہ طرزِ بیان سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمر کے اس موڑ پر پہنچ کر وہ کس قسم کے ذہنی خلفشار سے دوچار ہیں۔ظفر اقبال صاحب کے حمدیہ اشعار کے چند نمونے دیکھیے

بلندی پہ ہو جائے گا فائز اور
کہیں میرے اندر اُترنے سے تُو
**
ابھی تیرا ہونا نہیں کھل سکا
کہ چلنے سے ہے یا ٹھہرنے سے تُو
**
ابھی مل نہ پائے گا اقرار سے
تو مل جائے شاید مُکرنے سے تُو
ہماری ظفر اقبال صاحب سے استدعا ہے کہ اپنے رہوارِ قلم کی باگیں ہاتھوں میں تھامنے کی کوشش فرمائیں۔ بصورتِ دیگر بقول شاعر
’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘
کی صورتِ حال پیدا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
 ...................................................................... 

::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
میرا جی کے صرف چار اشعار

 جن کی تقلید نے ظفر اقبال کو شاعر بنا دیا۔لیکن ظفر اقبال نے جہاں سے فیض پایا،اس کا نیازمندی کے ساتھ اقرار کرنے کی بجائے اسی کے خلاف لکھنا ضروری سمجھا۔
.......................................................

........................................................
ڈاکٹر مظفر حنفی کے مضمون ’’میرا جی:شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات‘‘ سے اقتباس،

بحوالہ جدید ادب جرمنی میرا جی نمبر ۔
....................... 
’’میرا جی کے متفرق اشعار پڑھتے ہوئے مجھے بے ساختہ

   ظفر اقبال یاد آگئے۔تین چار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
 

ملائیں چار میں گر دو تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے دو تو باقی چار رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا پوچھتے ہو ہم سے یہ ہے حالتِ جگر
پی اس قدر کہ کٹ ہی گیا آلتِ جگر
۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے کا رنگ زرد، مئے ناب کا بھی زرد
یہ رنگ ہیں کہ رنگ ہے پیشاب کا بھی زرد
۔۔۔۔۔۔۔۔
دن میں وظیفہ اس کا کئی بار کیجیے
اپنے جگر کے فعل کو بیدار کیجیے

 
یعنی زبان کی توڑ پھوڑ اور مضامین کی اکھاڑ پچھاڑ کا جو کام ظفر اقبال آج کر رہے ہیں،اُس کا آغاز میرا جی نے ۷۰۔۸۰ برس پہلے کر دیا تھا۔دیکھیں وہ میرا جی کے اس فیضان کا اعتراف کب کرتے ہیں۔
‘‘
.........................................................................................
میرا جی کے چار اشعار کے فیض نے ظفر اقبال جیسا شاعر بنا دیا

لیکن ظفر اقبال اپنی اصل اور بنیاد کا اقرار کرنے سے گریزاں
پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen