Freitag, 8. Juli 2011

سمندر کا بلاوا

میرا جی
سمندر کا بلاوا

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مِرے
دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں،مگر یہ انوکھی ندا آرہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا
’’مِرے پیارے بچے‘‘۔۔’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے‘‘۔۔’’دیکھو‘‘اگر یوں کیا تو
بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا ۔۔’’خدایا،خدایا!‘‘
کبھی ایک سسکی،کبھی اک تبسم،کبھی صرف تیوری
مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں
انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئے جا رہی ہے

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں
یہ اک گلستاں ہے۔۔۔ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں، کھِل کھِل کے مرجھا کے
گِرتے ہیں ،اِک فرشِ مخمل بناتے ہیں جس پر
مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں
کہ جیسے گلستاں ہی اِک آئینہ ہے
اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری،مگر ایک پل میں جو جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ اُبھری

یہ صحرا ہے۔۔۔پھیلا ہوا،خشک،بے برگ صحرا
بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں
مگر میں تو دور۔۔ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں
نہ اب کوئی صحرا،نہ پربت،نہ کوئی گلستاں
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم تیوری
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مِرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
بلاتے بلاتے توکوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا
تو پھر یہ ندا آئینہ ہے،فقط میں تھکا ہوں
نہ صحرا،نہ پربت، نہ کوئی گلستاں،فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی

تین رنگ

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen