Samstag, 9. Juli 2011

ابوالہول

میرا جی

ابوالہول

بچھاہے صحرااوراُس میں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے
پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی

نہ اب وہ محفل،نہ اب وہ ساقی

مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے
فضائے ماضی میں کھو چکی داستانِ فردا
مگر یہ افسانہ خواں کھڑا ہے
زمانہ ایوان ہے،یہ اس میں سنا رہا ہے پرانے نغمے
میں ایک ناچیز و ہیچ ہستی
فضائے صحرا کے گرم و ساکن ،خموش لمحے
مجھے یہ محسوس ہورہا ہے
ابھی وہ آجائیں گے سپاہی؍وہ تُند فوجیں
دلوں میں احکام بادشاہوں کے لے کے
آجائیں گی اُفق سے
ہوائے صحرا نے چند ذرے کیے پریشاں
ہے یا وہ فوجوں کی آمد آمد؟
خیال ہے یہ فقط مِرا اک خیال ہے،میں خیال سے
دل میں ڈر گیا ہوں
مگر یہ ماضی کا پاسباں پُر سکون دل سے
زمیں پہ اک بے نیاز انداز میں ہے قائم

۱۹۳۶ء

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen