Montag, 11. Juli 2011

روحِ انساں کے اندیشے


میرا جی
 
روحِ انساں کے اندیشے


خیال موت کے مجھ کو ستا رہے ہیں کیوں؟
یہ سائے تیرہ و تاریک آرہے ہیں کیوں؟
اور عقل و ہوش کو بے خود بنا رہے ہیں کیوں؟
کہ زندگی کا ابھی ہو نہیں چکا آغاز
ابھی ہزاروں برس اور آنے والے ہیں
مِرے عروج و تنزل کو لانے والے ہیں
مجھے عجیب زمانے دکھانے والے ہیں
مجھے دکھائیں گے لا انتہا زمین کے راز
ابھی تو شامِ غمِ عشق ہے ، سحر ہو گی
ابھی تو شاخِ تفکر بھی بار ور ہو گی
ابھی خیال کی وسعت کشادہ تر ہو گی
کہ لاکھوں نغمے ہے دل میں لیے فضا کا ساز
یہ پست ہمت و دردانہ رنگ کیسے ہیں؟
یہ قلبِ کوہ میں گہرے سرنگ کیسے ہیں؟
یہ بحرِ فکر میں وحشی نہنگ کیسے ہیں؟
ابھی نہیں ہوئی پوری مری مہیب نماز
یہ کیسی وسعتِ کونین میں بجی شہنائی؟
تھا اس کا شور کہ بے باک زلزلہ آرائی؟
یوں دیو، فکر میں یہ عاجزی کہاں سے آئی؟
کہ سست رو ہے یہ بے چین،دہر گرد جہاز
 
پابند نظمیں

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen