Freitag, 8. Juli 2011

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

میرا جی

میں ڈرتا ہوں مسرت سے


میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت
مِری ہستی ہے اک ذرہ
کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ
ستاروں کا علمبردار کر دے گی،مسرت میری ہستی کو
اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی
تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ڈرتا ہوں
کہیں یہ میری ہستی کو بنادے خواب کی صورت
میں ڈرتا ہوں مسرت سے؍
کہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا


۱۹۳۶ء

2 Kommentare: